ہے۔ اگر قرب قیامت کے زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل نہیں ہوگے تو اپنی توفی کے بعد اپنے اوپر ایمان لانے والے اہل کتاب پرشہادت کیسے دیںگے؟
مذکورہ آیت سے یہ ثابت نہیںہوتا کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ قوم میں واپس نہیں آسکتے۔عیسیٰ علیہ السلام کی قوم میں عدم موجودگی کے وقت قوم خدا کی نگرانی میں رہی۔توفی کا دامن قیامت تک اممتد ہونے کا ذکر نہیں۔عیسیٰ علیہ السلام کا قول جھوٹا نہیںہوگا۔خدا کی نگرانی ان کے قوم میں موجود نہ ہونے کے وقت کی ہے۔اگر دوبارہ قوم کے اندر موجود ہوں تو ان پرگواہ ہوںگے۔جیسا کہ سورئہ النساء کی آیت:’ ’ویوم القیامۃ یکون علیھم شہیدا‘‘میں تصریح ہے۔
سوال نمبر:۶… ص۱۳پر لکھتے ہیں:’’خدا کے قائم کردہ حصر حقیقی کو جو سورئہ زمر کی آیت میں توفی کے معنے موت اورنیند قرار دیتا ہے۔توڑنے سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
جواب… توفی کے معنی موت نہیں ہیں۔قرآن مجید میں ہے:’ ’فامسکوھن فی البیوت حتی یتوفھن الموت‘‘{پس انہیں گھروں میں روکے رکھو،حتی کہ موت انہیں قبض کرلے۔}
موت کو فعل توفی کا فاعل قرار دیاگیا ہے۔فاعل اورفعل ایک نہیں ہوتے۔کیونکہ فعل فاعل سے صادر ہوتاہے۔عین ذات فاعل نہیں ہواکرتا۔توفی کے حقیقی معنے موت ہرگز ہرگز نہیں۔
سوال نمبر:۷… ص۱۴پر لکھتے ہیں:’’جناب میاں صاحب!یہ کیا بے علمی کی بات ہے کہ آپ توفی کے معنی زندہ آسمان پراٹھا لینا کر کے اس لفظ کورفع الی السما کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید میں خدا کے ان کو اپنی طرف اٹھا لینے کا ذکر ہے نہ آسمان پراٹھالینے کے الفاظ۔‘‘
جواب… توفی کو رفع الی السماء کے مترادف قرار نہیں دیاگیا۔گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ توفی ایک جنس ہے اوران کی تعیین کے لئے قرینہ دیکھناپڑتاہے۔آیت متوفیک ورافعککے مطابق قرینہ رفع الی اﷲ ہے۔ جوقرینہ کہ آیت’ ’بل رفعہ اﷲ‘میں بھی موجود ہے۔ گزشتہ صفحات میں یہ وضاحت گزر ی کہ رفع الی اﷲ سے مراد رفع الی السماء ہی ہے۔یہاں اس پرمزید روشنی ڈالی جاتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’ ’تعرج الملائکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ(۷۰:۱)‘‘{فرشتے اور روح اﷲ تعالیٰ کی طرف ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزارسال ہے۔}