سوال نمبر:۵… ص۱۲پر لکھتے ہیں:’’پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ ’ ’کنت انت الرقیب علیھم‘‘ ان کے اپنی قول میں دوبارہ واپس نہ آنے پر بطور اشارہ روشن دلیل ہیں۔ کیونکہ توفی کا دامن قیامت تک ممتد ہے اوراس وقت سے ان کی قوم خدا کی نگرانی میں چلی آرہی ہے اورقیامت تک انہیں نگرانی کا موقع نہ ملاہوگا۔لہٰذا اس جگہ وفات والی توفی متعین ہوگئی۔اس جگہ توفی کوئی اورمعنی لینا’ ’کنت انت الرقیب علیہم ‘‘کے الفاظ کے قرینہ کی رو سے محال ہیں۔ورنہ میاں صاحب!آپ کے عقیدہ کے مطابق اگر توفی سے اصالتاً واپس دنیا میں آئیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس بیان کوجھوٹا قراردینا پڑے گا کہ اے خدا جب تو نے میری توفی کرلی۔ یعنی بقول آپ کے مجھے زندہ آسمان پراٹھالیا۔تو اس وقت سے لے کر اس دن تک جو قیامت کا دن ہے مجھے قوم کی نگرانی کا موقع نہیں ملا۔بلکہ تو ہی اے خدا ا ن کا نگران چلا آرہا ہے۔‘‘
جواب… یہ بات غلط ہے کہ توفی کے بعدعیسیٰ علیہ السلام کو قوم کی نگرانی کاموقع نہیں ملاہوگا۔ سورئہ مائدہ کی آیت ’ ’کنت انت الرقیب علیھم‘‘یعنی میں اپنی قوم پرگواہ تھا۔جب تک ان کے درمیان رہا۔پس جب تو نے میری توفی کرلی تو تو ان پرنگران تھاکے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کی توفی اس وقت ہوئی جب کہ وہ اپنی قوم کے درمیان موجود تھے۔توفی کی صورت کیاہوئی۔اس کا جواب سورئہ النساء کی آیت:’ ’ماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘{یعنی یہودیوں نے یقینا عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔بلکہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا}رفع ماضی ہے۔صاف ظاہر ہے کہ واقعہ صلیب سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پراٹھالیا۔کیونکہ اس آیت سے پہلے کی آیت ’ ’وبقولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ وماقتلوہ وماصلبوہ‘‘سے ظاہر ہے کہ صلیب پر کوئی شخص قتل ضرور ہواہے۔لیکن وہ شخص عیسیٰ نہیںتھے۔ سورئہ النساء میں ہے:
’ ’وان من اھل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیھم شھید(۴:۱۵۹)‘‘{اوراہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو عیسیٰ پر عیسیٰ کی موت سے پہلے ایمان نہیں لے آئے گا اورقیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام ان پرگواہ ہوںگے۔}
لیؤمننن میں ل تاکیدی اورنون ثقیلہ مضارع میں خصوصیت کے ساتھ مستقبل کے معنی پیدا کرتے ہیں۔ جن اہل کتاب کا اس آیت میں ذکر ہے۔وہ نزول قرآن کے بعد مستقبل میں عیسیٰ علیہ السلام پرایمان لائیں گے اورقیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام ان پرگواہ ہوںگے۔ آیت ’ ’کنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم‘‘کے مطابق گواہ کا مشھود علیھم میں ہونا ضروری