تھے یا نہیں؟اس وقت تو نکاح مریم پر گفتگو ہورہی ہے۔مرزا قادیانی فرماتے ہیں کہ حالت حمل میں نکاح ہوا۔سوال یہ ہے کہ آیایہ نکاح قرآن وحدیث سے بھی ثابت ہے یا مرزا قادیانی ہی کو الہام ہواہے۔
منظور…اگر قرآن وحدیث سے ثابت نہیں تو نہ سہی۔انجیل سے توثابت ہے۔مرزا قادیانی نے انجیل ہی کے بھروسہ پرلکھاہے۔
اختر…توگویا مرزا قادیانی اورمرزائیوں کے عقائد کاانحصار قرآن وحدیث پر نہیں۔بلکہ انجیل اور اقوال یہود پرہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر جگہ جمہور مسلمین کے عقائد کے خلاف حضرت مریم صدیقہ کو یوسف نجار کی بیوی لکھتے ہیں۔العیاذ باﷲ
حمید…پروفیسرصاحب !آپ حیران کیوںہیں؟ممکن ہے مرزا قادیانی کو بذریعہ وحی اس نکاح کی اطلاع دے دی گئی ہو۔جیسا کہ محمدی بیگم کے نکاح کی اطلاع آپ کو دی گئی کہ آسمان پر ہو چکا ہے۔
جمیل…خوب،بہت خوب!
خالد…اچھا اخترصاحب!اب کچھ اورفرمائیے۔
اختر…کیا ابھی تک آپ کی تسکین نہیں ہوئی؟معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو مرزا قادیانی کے کلام بلاغت نظام سننے کا بہت شوق ہے۔
خالد…جی ہاں!جب شو ق تھا تب کلام مرزا کوئی نہ سناتاتھا اور اب جو سنا اوراسے حق سمجھا تو احمدیت سے خارج ہو گیا۔
جمیل…یہ بھی آپ نے خوب کہی۔یعنی اگر کوئی کلام مرزا کی تاویل کرے تو وہ سچا مرزائی اور احمدی اور جو اسے بلفظ ٹھیک سمجھے اوراس کی کوئی تاویل نہ کرے وہ کافر اور دائرہ احمدیت سے خارج ہو جائے۔
حمید…خیر اب اخترصاحب ایک حوالہ اور پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ذرا وہ بھی سن لیجئے۔
اختر…ہاں سنئے۔مرزا قادیانی (اخبار الحکم مجریہ ۲۴؍جولائی ۱۹۰۲ء ص۱۶کالم ۲،۳) میںاسی مضمون کو ذرا وضاحت سے یوں ارقام فرماتے ہیں:’’بزرگوں نے بہت اصرار کرکے بسرعت تمام مریم کا اس (یوسف نجار) سے نکاح کرادیا اورمریم کو ہیکل سے رخصت کردیا۔تاخدا کے مقدس گھر پر نکتہ چینیاں نہ ہوں۔کچھ تھوڑے دنوں کے بعد ہی وہ لڑکاپیداہوگیا جس کا نام یسوع رکھاگیا۔‘‘
جمیل…لیجئے جناب مولانا منظور صاحب!اس عبارت سے پہلے حوالہ کو اوربھی تقویت مل گئی۔