۱… مریم صدیقہ کا نکاح سے قبل اپنے منسوب یوسف سے ناجائز تعلق رہا۔ جیسا کہ یہود میں رواج تھا۔
۲… مریم کا نکاح اورحمل بزرگان کے اصرار پر یوسف نجار سے ہوا۔مگر قرآن کریم ان کی تردید کرتاہے۔ملاحظہ ہو پارہ ۱۶ جہاں اﷲ تعالیٰ نے بزبان مریم یہ ارشاد فرمایا:’’قالت انّٰی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا‘‘{یعنی جب مریم صدیقہ کے پاس فرشتہ لڑکے کی بشارت لے کرآیا تو اس نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر پیداہوگا ۔ مجھے تو ابھی تک کسی نے ہاتھ تک نہیںلگایا اورنہ ہی میں بدکار ہوں۔}
اس آیت میں پہلی بات کی نہ صرف نفی کی گئی ہے بلکہ تردید بھی ہے اور زوردار الفاظ میں تردید ہے۔جسے ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔پھراس کے بعد جب لڑکا پیدا ہوتا ہے اورمریم صدیقہ اسے لے کر اپنی قوم کے پاس آتی ہے۔ تو قوم نہایت حیرت و استعجاب سے اسے یہ کہتی ہے:’’قالوا یمریم لقد جئت شیئا فریا۰یاخت ھارون ماکان ابوک امرا سوء وما کانت امک بغیا‘‘{یعنی اے مریم یہ بچہ تو کہاں سے لے آئی۔تیرے تو ماں باپ بھی بدکار نہ تھے۔ نہ توبدکارتھی۔پھر یہ کیونکر پیداہوا؟}
یہ آیت صاف بتارہی ہے کہ قوم خود حیران تھی کہ بچہ کیونکر پیداہوا؟مریم خود صالح اور پارسا اس کے ماں باپ نیک اورمتقی،پھر یہ بچہ کیونکر ہوا؟۔اگر قوم بحالت حمل خود یوسف نجار سے نکاح کرتی تویہ سوال نہ کرتی اور اسے اس پر کوئی استعجاب نہ ہوتا۔
پس معلوم ہوا کہ مرزا قادیانی یا قرآنی تعلیم سے بے خبرتھے یا دیدہ دانستہ قرآن تعلیم سے اغماض فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے استدلالات کا دارومدار زیادہ تر اسرائیلیات پرہے۔
خالد…واہ مسٹرحمیدصاحب!آپ نے بھی کمال کردیا۔بخداآپ بھی توچھپے رستم نکلے۔میرا خیال تھا کہ آپ صرف بی اے ہیں۔مگر اب معلوم ہوا کہ آپ قرآن مجید میں بھی خوب درک رکھتے ہیں۔
حمید…یہ محض پروفیسر صاحب کے فیض صحبت کااثر ہے:
جمال ہمنشین در من اثر کرد
وگرنہ من ہما خاکم کہ ہستم
جمیل…چھوڑو بھائی یہ گفتگو پھر ہوجائے گی۔مولوی منظورالحسن سے پوچھو کہ ان کی بھی کچھ تسکین