توڑا گیا اورتعدداز واج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی۔ میں کہتاہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں، جو پیش آگئیں۔اس صورت میںوہ لوگ قابل رحم تھے نہ قابل اعتراض۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۶،خزائن ج۱۹ ص۱۸)
جمیل…العیاذ باﷲ۔خالد صاحب! فرمائیے اب اس سے زیادہ اورکیا لکھا جا سکتا ہے۔جسے توہین پر محمول گردانا جائے۔
خالد…بخدا میںتواب سچے دل سے تائب ہوچکاہوں اورکشتی نوح کی یہ عبارت سننے کے بعد یقین رکھتاہوں کہ اگر کسی احمدی(مرزائی) میںرتی بھر بھی ایمان ہوا تو وہ یقینا مرزائیت سے الگ ہو جائے گا اورمرزا قادیانی پر ہزارہزار نفرین بھیجے گا۔
منظور…واہ خالد صاحب اتنی جلد تیور بدل گئے۔ چھ سال آپ حلقہ احمدیت میں رہے اور بدلنے میں اب چھ منٹ بھی نہ لگائے۔کم از کم اس کے متعلق میرا جواب توسن لیتے۔
خالد…چھوڑئیے صاحب! آپ کا جواب کیاہوگا۔یہی نا؟کہ مرزا قادیانی کا یہ اپنا عقیدہ نہ تھا۔ بلکہ انہوں نے دوسروں کے اقوال نقل کئے ہیں۔
منظور…ہاں ہاں بات بھی تویہی ہے کہ مرزا قادیانی خود عیسائیوں ہی کی کتابوں سے یہ باتیں نقل کر رہے ہیں۔
خالد…بس کیجئے مولانا!آپ کی علمیت کا بھی مجھے آج ہی پتہ چلا۔ میں حیران ہوں کہ آپ کیونکر مرزائیوں میں رئیس المناظرین بن گئے ہیں۔ آپ کی علمیت کا تو یہ عالم ہے کہ ہر اعتراض کے جواب میں بجز ایک بات کے اورکچھ کہہ ہی نہیں سکتے۔
حمید…اچھامولانا یہ فرمائیے کہ مرزا قادیانی کا قرآن کریم پر بھی ایمان تھا یا نہیں؟
منظور…تھا اورضرور تھا۔
حمید…مگر ان کی ان بہکی بہکی باتوں سے تو مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کاقرآن مجید پر بھی ایمان نہیں تھا۔
منظور …وہ کس طرح؟
حمید…یوں کہ مرزا قادیانی ہر جگہ قرآن کوچھوڑ کر ادھر ادھر کی روایات میںسرگرداں رہتے تھے۔ چنانچہ مثال کے طورپرآپ اسی حوالہ کو لے لیں۔ جو (کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸) اور (ایام الصلح ص۶۵،خزائن ج۱۴ص۳۰۰)سے پیش کیاگیا۔اس میں مرزا قادیانی نے کسی کتاب کا حوالہ دیئے بغیر بطور اپنی تحقیق کے یہ دو چیزیں پیش کی ہیں: