عیسیٰ عنداﷲ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون‘‘{بے شک اﷲ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے،اسے مٹی سے بنایا پھر اس سے کہاہوجا،پس وہ انسان ہوگیا۔}
اس آیت سے ثابت ہوا کہ آدم علیہ السلام کا قالب اﷲ تعالیٰ نے مٹی سے تیارکیا۔پھر اس سے کہا ہوجا،تو وہ ہوگیا۔اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق لفظ’’کن‘‘ کہنے سے ہوئی۔عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بارے میں قرآن مجید کی آیت ہے:’ ’التی احصنت فرجھا فنفخنا فیھا من روحنا (۲:۹۱)‘‘{اور(اے رسولؐ) اس بی بی(مریم) کو (یاد کرو) جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی تو ہم نے ان(کے پیٹ میں )اپنی طرف سے روح پھونک دی۔} ہر انسان کی تخلیق مٹی سے نہیں ہوئی۔قرآن مجید میں ہے:
’ ’وبدأخلق الانسان من طین ثم جعل نسلہ من سللۃ من ماء مھین (۳۲:۸)‘‘{اورانسان کی ابتدائی خلقت مٹی سے کی۔پھر اس کی نسل ذلیل پانی کے خلاصہ سے بنائی۔}سورئہ فاطر کی آیت میں ’ ’خلقکم من تراب‘‘سے آگے’ ’ثم من نطفۃ‘‘ہے۔ ’ ’خلق من تراب‘‘کا تعلق نوع انسانی سے ہے۔’ ’ثم من نطفۃ‘‘اس خلق کا تعلق ہر ہر فرد سے ہے۔
آپ کی بیان کردہ پانچ حالتوں میں سے ہر شخص کو نہیں گزرنا پڑتا۔اس کا آپ نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔انسان کامختلف آیات میں تراب،صلصال کا لفخار،طین، طین لازب اور سللۃ من طین سے پیدا کیاجانا بیان ہواہے۔
آدم علیہ السلام پہلے انسان ہیں۔ان پر ان میں سے کسی لفظ کااطلاق ہو سکتا ہے۔لیکن عیسیٰ علیہ السلام کے لئے نہیں۔نطفہ امشاج کا ایک طینی حالت رکھنا آپ نے کسی آیت سے ثابت نہیں کیا۔اﷲ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کے نطفہ امشاج میں سے ہونے کے حقیقی حصر کو ضرور توڑا ہے۔ آدم علیہ السلام کی پیدائش یقینا نطفہ امشاج سے نہیں، نہ ان کی ماں تھی اور نہ ان کا باپ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہیں تھا۔لہٰذا ان کی پیدائش نطفہ امشاج سے ہونے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی پیدائش آدم علیہ السلام کی طرح اﷲ تعالیٰ کے لفظ’’کن‘‘ کہنے سے ہوئی۔جب یہاں حقیقی حصر کوتوڑاجاسکتا ہے توتوفی کے موت اورنیند میں وقوع کے حصر کو کیوں نہیں توڑا جاسکتا۔اوپر آپ کو مثال بھی پیش کردی گئی ہے کہ توفی کافاعل اﷲ تعالیٰ ہے اورنفس انسانی مفعول ہے۔لیکن توفی موت یانیند کے ذریعے نہیںہوئی۔