بے ادبی کا کلمہ میرے منہ سے کوئی نہیں نکلا۔ یہ سب مخالفوں کا افتراء ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۷۷، خزائن ج۱۵ص۳۰۵)
جمیل…چلئے مولانا خالد صاحب کی تو تسکین ہوگئی اور یہ تو مرزائیت سے تائب ہوگئے۔ اب مولوی منظورالحسن کو درست کرنے کے لئے کچھ اورحوالجات پیش کریں۔
اختر…حقیقت کو سمجھنے اوراصلیت کو پالینے کے لئے تواتنے ہی حوالے کافی تھے۔ مگر خیر اور لیجئے۔ یہاں کیا کمی ہے۔ابھی توبمشکل نصف حوالجات ہی پیش ہوئے ہیں۔
خالد…خوب!گویا ابھی آپ کے پاس مرزا قادیانی کی تصنیفات سے اتنی ہی اور تحریرات باقی ہیں۔ جن میں توہین انبیاء کاپہلونمایاں ہورہاہے؟
اختر…جی ہاں لیجئے اورسنئے۔ ایک دفعہ بعض لوگوں نے مرزاقادیانی پر یہ اعتراض کیا کہ آپ کے مرید داڑھی منڈواتے ہیں توبجائے اس کے آپ انہیں سمجھاتے یا داڑھی رکھنے کی تاکید کرتے اوراس کی سنیت واہمیت پر تقریر فرماتے۔آپ مخاطبین سے یوں گویاہوئے:’’لوگ کن بیہودہ اعتراضوںمیں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ ظاہر کو دیکھتے ہیں ہم باطن کو۔ حضرت عیسیٰ پر ایک شخص نے اعتراض کیا کہ آپ نے فاحشہ عورت سے عطر کیوں ملوایا توانہوں نے کہادیکھ تو پانی سے میرے پاؤں دھوتا ہے۔ مگر عورت آنسوؤں سے…خدا کے نزدیک خلوص شرط ہے اورحقیقت میں حضرت مسیح نے ٹھیک فرمایا۔‘‘ (ملاحظہ ہو اخبار بدر،۴؍مئی ۱۹۰۸ئ)
اب غور فرمائیے کہ ایک طرف تو اس فعل کو محض ’’الزام علی المسیح‘‘ قرار دیا جارہا ہے اور دوسری طرف ذاتی اغراض کے لئے اسے بالکل ’’عمل مسیح‘‘ ظاہر کر کے اسے باطن شناسی بتلایا ہے۔ مگر جب عیسائیوں سے مقابلہ پڑتا ہے تو اسی فعل مستحسن کو یسوع کے شہوت پرست ہونے کی دلیل بنالیاجاتاہے۔
حمید…کیوں مولوی منظورالحسن صاحب!اب کیاارشادہے؟
جمیل…بھئی اب آپ ان سے طنزاً نہ پوچھیں وہ خود اس معاملہ پرغور فرمارہے ہیں۔
اختر…اچھاآگے چلئے کچھ اورسنئے۔ارشاد ہوتاہے:’’مسیح کاچال چلن ہی کیا تھا ایک کھاؤ پیو، شرابی ،نہ زاہد نہ عابد نہ حق کاپرستار،متکبر،خود بین،خدا ئی کادعویٰ کرنے والاتھا۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۱ص۱۸۹)
مرزا قادیانی یہ سب کچھ لکھتے ہیں اورپھر فرماتے ہیں کہ:’’ حضرت مسیح کے حق میں بے ادبی کا کوئی کلمہ میرے منہ سے نہیں نکلا۔‘‘