مزاآتا ہے۔وہ ایسے موقع پر کسی ناصح کی نصیحت بھی نہیں سنا کرتے۔دیکھو یسوع مسیح کو ایک غیرت مند بزرگ نے نصیحت کے ارادے سے روکنا چاہا مگر یسوع صاحب نے اس کے چہرہ کی تر شروئی سے سمجھ لیا کہ میری اس حرکت سے یہ شخص بیزار ہے۔ تو رندوں کی طرح اعتراض کو باتوں میں ڈال دیا اوردعویٰ کیا کہ یہ کنجری اخلاص مند ہے۔ سبحان اﷲ!یہ کیا عمدہ جواب ہے یسوع مسیح صاحب ایک زناکار عورت کی تعریف کردیتے ہیں کہ بڑی نیک بخت ہے۔ دعویٰ خدائی کا اور کام یہ۔ بھلاجو شخص ہر وقت شراب سے سر مست رہتا ہے اورکنجریوں سے میل جول رکھتا ہے اور کھانے میں بھی اول نمبر کا۔ جو لوگوں میں اس کا نام ہی پڑ گیا ہے کہ یہ کھاؤ پیئوہے۔اس سے کسی تقوے اورنیک بختی کی امید ہوسکتی ہے۔ کون عقلمند اورپرہیز گار ایسے شخص کو پاک باطن سمجھے گا جو جوان عورتوں کے چھونے سے پرہیز نہیں کرتا۔ ایک کنجری خوبصورت ایسی قریب بیٹھی ہے گویا بغل میں ہے۔ کبھی ہاتھ لمبا کر کے سر پر عطر مل رہی ہے اورکبھی پیروں کوپکڑتی ہے اور کبھی اپنے خوشنما سیاہ بالوں کو پیروں پر رکھ دیتی ہے اور گود میں تماشہ کر رہی ہے اوریسوع صاحب اس حالت میںوجد میں بیٹھے ہیں اور کوئی اعتراض کرنے لگے تواسے جھڑک دیتے ہیں اور طرفہ یہ کہ عمرجوان اور شراب پینے کی عادت اور پھر مجرد اورایک خوبصورت کسبی عورت سامنے پڑی جس کے ساتھ جسم لگارہی ہے…کمبخت زانیہ کے چھونے سے اورناز وادا کرنے سے کیا کچھ نفسانی جذبات پیدا ہوئے ہوںگے اور شہوت کے جوش نے پورے طورپر کام کیاہوگا۔‘‘
اب اس عبارت کو غور سے پڑھو اورانصاف سے کہو کہ کیا یہ عبارت بھی انجیل اوربائیبل ہی سے اخذ کی گئی ہے یا ایجاد بندہ ہے۔ مکرر پڑھو اور بتاؤ کہ کیا اب بھی ’’توہین انبیائ‘‘ کے قائل ہوگے یا نہیں؟
منظور…بات دراصل یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے الزام مخالفین ہی کانقل کیا ہے گو الفاظ اپنے ہیں۔
اختر…جی ہاں میں بھی یہی کہہ رہا ہوں ۔ ان کا الزام ان کے الفاظ میں نقل کرکے حوالہ دے دینا چاہئے تھا اوربس۔ نہ کہ ایک ہی بات کو مزے لے لے کر لکھناچاہئے تھا۔
حمید…ٹھیک ہے خالد صاحب!ذرا غور کیجئے بات صرف ایک ہی ہے مگر مرزا قادیانی نے اسے اتنا طول دیا اورمضمون میں اس قدر تکرار سے کام لیا ہے کہ خواہ مخواہ دوسروں کو یہ شبہ پڑ سکتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے لکھ رہے ہیں۔