اس لئے لکھا کہ مرزا قادیانی نے اپنی حسب عادت مگر پردہ انجیل کا اوڑھ لیا تاکہ مسلمان کہیں کھلے بندوں کفر کا فتویٰ نہ لگادیں۔
منطور…خیر یہ توآپ کی تاویل ہے۔ ورنہ مرزا قادیانی نے اکثر مقامات پر اس کااظہار کر دیا ہے کہ میں عیسائیوں اوریہودیوں کے حوالجات سے ایسا لکھ رہاہوں۔ میری اپنی یہ رائے نہیں ہے۔
اختر…اچھا اگر آپ مرزا قادیانی کی کسی کتاب سے یہ عبارت نکال دیں کہ ’’میری یہ اپنی رائے نہیں ہے۔‘‘تو میں آپ کو سو روپیہ انعام دوںگا۔
جمیل…چلئے مولانا ۱۰۰ روپیہ بیٹھے بٹھائے ملتا ہے۔ اب آپ کو اورکیا چاہئے؟
منظور…اس وقت تو کسی کتاب کا نام مجھے یاد نہیں ہے۔ البتہ تلاش کر کے آپ کو دیکھا دوںگا۔
اختر…غلط بالکل غلط۔ ناممکن ہے کہ آپ کی نوٹ بک میں اس کا حوالہ موجود ہو۔ حوالہ آپ نکالیں کتابیں حاضر ہیں۔
حمید…ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ آپ مناظر ہیں۔ یقیناآپ نے اس قسم کے حوالجات نوٹ کر رکھے ہوںگے۔نکالئے اب دیر نہ کیجئے۔
خالد…معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کے پاس اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ اس لئے تو کھسیانے سے ہو رہے ہیں۔
جمیل…کیوں خالدصاحب اب بھی کچھ سمجھے یا نہیں؟
خالد…بخدا میں تو حیران ہورہا ہوں کہ آج مولانا منظور الحسن کو کیا ہوگیا یہ توکسی کو دم تک نہ لیتے دیتے تھے اوراحمدیہ جماعت کے بہت بڑے مبلغ ومناظر تھے۔
حمید…جی ہاں مناظر تھے مگر یہاںتو کچھ سوال ہی ٹیڑھے ہورہے ہیں۔ اگر ختم نبوت اور حیات ممات پرگفتگو ہوتی تو بیشک منظور صاحب بہت کچھ بولتے۔
خالد…میں نے سمجھ لیا کہ ان کے پاس پروفیسراختر کے اعتراضات کا کوئی جواب نہیںہے۔
منظور…واہ خالدصاحب آپ بھی بزدل ہی نکلے۔اتنی جلد ہمت ہار گئے۔ میں جواب تو دے رہا ہوں کہ مرزا قادیانی نے یہ عیسائیوں کا عقیدہ ظاہر کیا ہے۔ اپنا عقیدہ بیان نہیں کیا۔
اختر…جی ہاں اس کا جواب تو میں بھی دو تین بار دے چکا۔ مگر اب مرزا قادیانی ہی کے الفاظ میں سنئے:’’اگر ایک مسلمان عیسائی عقیدہ پر اعتراض کرے تواس کو چاہئے کہ اعتراض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان اورعظمت کا پاس رکھے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ص۴۷۱)