سوال نمبر:۴… ص۱۰،۱۱پرلکھتے ہیں:’’ جناب من !آیت ’ ’انا خلقناالانسان من نطفۃ امشاج‘‘میں خود آپ نے حصر حقیقی نہیں مانا۔بلکہ بظاہر حصر لکھا ہے۔لہٰذا اس آیت میں صرف استغراق عرفی پایاجاتاہے نہ کہ استغراق حقیقی۔لہٰذا اس بحث میں یہ آیت پیش کرنے کا اوّل: تو آپ کو حق ہی نہیں پہنچتا۔کیونکہ بظاہر حصر پر حقیقی حصر کاقیام نہیں کیاجاسکتا۔دوم: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش گوبن باپ تھی۔لیکن تھی نطفہ امشاج سے۔ان کی ماں ہی میںان غذاؤں سے مرکب نطفہ پیدا ہوا۔یعنی نطفہ امشاج جو نفسیاتی تحریک سے بیضہ انوثیت میں قرار پکڑ کر حمل کی صورت اختیار کرگیا۔پس مریم ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں ہے اوروہی باپ۔
جواب… پھر اگر آدم کی پیدائش اگر مٹی سے ہوئی ہے تو آیت ’ ’ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل ادم خلقہ من تراب (آل عمران:۵۹)‘‘کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے بلکہ آیت ’ ’خلقکم من تراب (۱۱،۳۵)‘‘کے مطابق ہر انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے۔پس ہم اورآپ سب مٹی سے ہی پیدا ہوئے ہیں۔قرآن مجید میں انسان کی پیدائش تراب(مٹی) صلصال کا لفخار(بجنے والی مٹی)طین (کیچڑ) طین لازب(یعنی دارمٹی)سللۃ من طین یعنی مٹی کے خلاصہ سے ہوتی ہے۔یہ وہ حالتیں ہیں جن میں سے ہر شخص کو گزرنا پڑتاہے اورمسیح اورآدم کو بھی ان میں سے گزرنا پڑا۔نطفہ امشاج بھی ایک طینی حالت ہی رکھتا ہے۔مگر آیت ’ ’اناخلقنا الانسان من نطفۃ امشاج‘‘میں حصر حقیقی خود آپ نے نہیں مانا۔ لہٰذا اگر حضرت آدم علیہ السلام نطفہ امشاج سے فرض نہ کی جائے تو بوجہ آیت میں استغراق عرفی پایاجانے کے آپ کو سورئہ زمر کی اس آیت کے حصرحقیقی کو توڑنے کا کوئی حق نہیں۔کیونکہ یہ حصر اثبات اورنفی کے دونوں پہلوؤں میں گردش کررہا ہے۔ان دونوں پہلوؤں سے باہر خداتعالیٰ کی طرف سے انسان کی توفی کا کوئی فعل کسی تیسری صورت وقوع میں نہیں آسکتا۔‘‘
آیت’ ’اناخلقنا الانسان …الخ‘‘میں انا کے لفظ سے ظاہر ہے کہ حصر حقیقی ہے اور آیت ’ ’اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا… الخ‘‘میں لفظ ان موجود نہیںہے۔لہٰذا توفی کا بذریعہ موت اورنیند عمل میں آنا حقیقی حصر نہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش نطفہ ہے جو مرد وعورت کے اختلاط سے پیدا ہوتا ہے۔کسی انسان کی ماں کا اس کا باپ بھی ہونا آپ کے ذہن رساسمجھے تو سمجھے،ہم توبہرحال سمجھنے سے قاصر ہیں۔
سورئہ آل عمران کی پوری آیت آپ نے نہیں لکھی۔پوری آیت یہ ہے:’ ’ان مثل