اختر…بھئی خالد تم تائب کیا ہوگے۔میراخیال ہے کہ اگر مرزا قادیانی بھی اس وقت زندہ ہوتے اوران کے سامنے یہ چیز بیان کی جاتی تو وہ خود بھی تائب ہوجاتے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام نے صرف مسئلہ حیات وممات اور ختم نبوت ہی کو موضوع بحث بنائے رکھا اور اس چیز کی طرف ان کا خیال تک نہ گیا۔ مجھے آج تک جس قدردوستوں سے گفتگو کا موقع ملتا رہا ہے میں صرف اسی چیز کو ان کے سامنے پیش کرتا رہا ہوں اوراس قسم کی چندچیزیں اور بھی ہیں جنہیں میں پیش کرنا چاہتاہوں۔
خالد…اچھا فی الحال آپ دوسری چیزوں کو تورہنے دیں۔اسی موضوع پر اگر کچھ اورکہنا چاہیں تو ارشاد فرمائیں۔
حمید…کیا ابھی اورکچھ سننا باقی ہے؟
جمیل…کیاحرج ہے۔ مولانا اختر جس قدر حوالجات پیش کر سکتے ہوں کرتے جائیں۔ ان کا ایمان مضبوط ہو تاجائے گا۔
اختر…اچھا لیجئے سنتے چلئے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح کے ’’کلام فی المھد‘‘ کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی۔ کسی نے کہا جناب یہ تو قرآن مجید میں بھی مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو سورئہ مریم:’’قالو اکیف نکلم من کان فی المھد صبیا‘‘تومرزا قادیانی ازراہ تحقیر فرماتے ہیں کہ میاں یہ کون سی بات ہے۔ اگر مسیح نے گود میں باتیںکی ہیں تو کیا ہوا۔ میرا یہ بیٹاپیٹ میں بھی باتیں کرتارہا ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی کے اصل الفاظ یہ ہیں:’’حضرت مسیح نے تو صرف مہد میں ہی باتیں کیں۔مگر (میرے) اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۴۱،خزائن ج۱۵ص۲۱۷)
حمید…واہ واہ!کیا کرامت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے اس کی باتوں کو سن کیسے لیا؟ وہ کون سی ضروری باتیں تھیں جو بچہ پیٹ میں ہی کرنے لگا اور پیدا ہونے کاانتظار تک نہ کیا۔
اختر…خیر مجھے اس سے کیا؟ میں توصرف یہ ثابت کرنا چاہتاہوں کہ مرزا قادیانی اگر کسی نبی کی کوئی ایسی بات سن پاتے۔جس سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی تو یہ گوارہ نہ کر سکتے اورجھٹ سے اپنی طرف بھی منسوب کرنے کی کوشش کرتے۔خواہ اس سے نام ہو یا بدنامی ۔
جمیل…جیسا کہ یہ بات لکھی ہے جو بالکل خلاف واقعہ اور خلاف عقل ہے۔
اختر…معلوم ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کچھ خدا واسطے کی دشمنی تھی کہ بات بنے یا نہ بنے ہر ذم کے موقعہ پر آپ ان کا ذکر کر دیتے ہیں۔ چنانچہ (انجام آتھم ص۴۱، خزائن