اختر…اچھا اورسنئے (ضمیمہ انجام آتھم ص۵،۶،خزائن ج۱۱ص۲۸۹،۲۹۰)پر حضرت مرزا قادیانی فرماتے ہیں:’’بلکہ میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیاکرتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔جن جن پیشگوئیوں کا اپنی ذات کی نسبت تورات میں پایا جانا آپ نے فرمایاہے۔ ان کتابوں میں آپ کا نام ونشان نہیںپایا جاتا۔ وہ اوروں کے حق میں تھیں جوآپ کے تولد سے پہلے پوری ہوگئیںاورنہایت شرم کی بات ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغزکہلاتی ہے۔ یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کرلکھا ہے اورپھر ایسا ظاہر کیاہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے لیکن جب یہ چوری پکڑی گئی عیسائی بہت شرمندہ ہیں۔‘‘
اب خود فرمائیے کہ اس عبارت میں کس تحدی سے مرزا قادیانی نے عیسیٰ علیہ السلام پر دو الزام لگائے ہیں۔ اول یہ کہ وہ گالیاں دیا کرتے تھے اوراسی وجہ سے مار کھایا کرتے تھے۔ دوم یہ کہ وہ جھوٹ بولاکرتے تھے۔ یہاں تک کہ آسمانی کتاب میں بھی جھوٹ کی ملاوٹ کردی۔ نعوذ باﷲ
حمید…سبحانک ہذا بہتان عظیم!
جمیل…کیوں بھئی خالد!اسے بھی جھوٹ سمجھو گے یا نہیں؟
خالد…بھئی مجھے کچھ نہ پوچھو اب مولانا منظورالحسن صاحب کومخاطب کرو یہ ہم میں سے عالم ہیں۔ یہی اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔
حمید…توگویا آپ کا مبلغ علم اب ختم ہوچکااورتاویلات رکیکہ کا دروازہ بند ہوگیا۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو اب سوچنے کی توفیق دی ہے۔ کیونکہ انسان جبھی کسی چیز کو بغور سوچ سکتا ہے جب بالکل خالی الذہن ہوجائے۔ یعنی دونوں طرف کی محبت یا خوف دل سے نکال دے ۔ امید ہے اب آپ جلد راہ راست پر آجائیںگے۔
جمیل…ہاں تو مولانا منظور صاحب !اب آپ ہی فرمائیں کہ اس عبارت کی کیا تاویل کریںگے یا پھر چپکے سے وہی کہہ دیں گے کہ دراصل یہ بھی یہودہی کا قول نقل کیاگیا ہے۔
منظور…ہاں!بات تو یہی ہے کہ یہ قول بھی یہود ہی کا ہے۔ میں تو خالد صاحب کی طرح متذبذب نہیںہوسکتا۔
جمیل…نہ نہ آپ متزلزل نہ ہوں۔ آپ توانجمن احمدیہ کے تنخواہ دار مبلغ ہیں۔ خالد صاحب تو آنریری تھے۔ اس لئے وہ تو سوچ بچار سے کام لے کر غلامی کا طوق گلے سے اتار سکتے ہیں۔ مگر