حمید…بھائی!شرط تو تم نے بھی کڑی لگائی۔ اب دیکھیں کہ پروفیسرصاحب حقیقت الوحی سے بھی کوئی حوالہ پیش کر سکتے ہیں یا نہیں؟
ظہور…کہئے کہئے اخترصاحب اگر کوئی حوالہ ہے تو پیش کیجئے ورنہ ہم آپ کے خلاف فیصلہ دے دیںگے۔
اختر…جی ہاں!ابھی آپ کو فیصلہ دینا یا د آیا۔دوگھنٹے خاموش بیٹھے رہے۔مگر ابھی پانچ منٹ نہیں گزرے کہ اکتاگئے اورجھٹ سے فیصلہ دینے پر آگئے۔
جمیل…نہیں نہیں،یہ تو مزاح تھا۔فیصلہ اتنی جلدکیوںدیںگے؟آپ فرمائیں کہ حقیقت الوحی سے کوئی توہین انبیاء کا پہلو نکلتا ہے بھی یا نہیں؟
اختر…کیوں نہیں۔لیجئے سنئے اورنمبروار سنئے:
’’مسیح ابن مریم کے نام سے خاص طور پر مجھے مخصوص کرکے وہ میرے پر رحمت اور عنایت کی گئی جو اس پر نہیں کی گئی تاکہ لوگ سمجھیں کہ فضل خدا کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۵۴،خزائن ج۲۲ص۱۵۸)
خالد…تواس میں کون سا توہین کا پہلو ہے۔ یہ تو ایک بدیہی چیز ہے۔
اختر…جی ہاں!آپ کے نزدیک تو بہت بدیہی چیزیں ہیں اورکسی ایک جگہ بھی توہین کا رنگ نہیں ہے۔ مگر یہ فیصلہ منصفوں اورلکھے پڑھے لوگوں نے دینا ہے کہ کیا اس میں توہین ہے یا نہیں؟
منظور…نہ پروفیسرصاحب!آخر کچھ تو بتائیے کہ اس میںکیا توہین ہے؟
اختر…واہ مولانا آپ بھی خالد صاحب کے ساتھ ہو گئے۔ کیا آپ بھی یہ نہیںسمجھ سکے؟فرض کیجئے کہ میں اورخالد صاحب ایک ہی دفتر میں کلرکی کا کام کررہے ہیں۔ مگر افسر بالاخالد صاحب پر نظر عنایت رکھتا ہے اوران کو وسیع اختیارات دے دیتا ہے یا بالفاظ دیگر وہ ہیڈ کلرک کہلاتے ہیں اور ہم انہیں کے برابر تعلیم رکھنے والے،انہیں کے برابر تنخواہ لینے والے ان کے ماتحت سمجھے جاتے ہیں اورخالد صاحب جگہ بجگہ فخریہ اسے بیان کرتے پھرتے ہیں۔ کیا اس میں ہماری توہین کا کوئی پہلو ہے یا نہیں؟
منظور…بھلااس میں توہین کیاہے؟جب افسر نے اسے ہیڈکلرک بنادیا تو اس میں خالد غریب کا کیا قصور؟
اختر…جی ہاں! یہ تو جب ہے کہ ہم افسر بالا کا حکم دیکھ لیں کہ اس نے خالد کویہ عہدہ دے دیا اور