جس کے معنی نیچے رکھنے کے ہیں۔ سو رفع کے معنی اوپراٹھانے کے ہیں۔ آیت قرآنی ’ ’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘میں ضمیر کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام ہیں جو کہ روح اورجسم کا مرکب ہیں۔پس یہاں رفع جسمانی ہی مراد ہوگا۔رفع روحانی نہیں ہوسکتا۔عیسیٰ علیہ السلام کے لئے رفع الی اﷲ کا استعمال علومرتبت کے اظہار کے لئے ہے۔قرآن مجید میں ہے:’ ’أمنتم من فی السماء ان یخسف بکم الارض (۶۷:۱۶)‘‘ {یعنی کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے امن میں ہوکہ تمہیں زمین میں دھنسادے}اﷲ تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے۔’’علو‘‘شان کی وجہ سے اس کا آسمان میں ہونا بیان ہواہے اورچونکہ وہ آسمان میں ہے۔سواس کی طرف رفع، آسمان کی طرف رفع ہوگا۔پس رفع الی اﷲ کے معنی رفع الی السماء ہی ہوں گے۔
سوال نمبر:۲… ص۶پر آپ نے رفع والی توفی کا ذکرکیاہے۔ جواب اس سے واضح ہے کہ توفی ایک جنس ہے اور رفع اس کی ایک نوع ہے اور یہی ہماری مراد ہے۔لیکن آگے چل کر لکھتے ہیں:’’سورۃ زمر کی حصر یہ آیت کے مطابق ان کے اپنے بیان کی رو سے ان کی موت والی توفی ہوئی۔‘‘گویا کہ آپ رفع اورموت کو ہم معنے قرار دے رہے ہیں۔کیا عجیب لغت دانی ہے؟
جواب… ص۹،۱۰پر لکھتے ہیں:’’پس جب توفی کامضمون اثبات اورنفی کی ہر دو صورتوں میں دائرہ ہے تو خداتعالیٰ کے نفس انسانی کی توفی کی کوئی تیسری صورت جو اس اثبات یعنی وفات والی توفی اوربصورت ’ ’لم تمت فی منامھا‘‘نیند والی توفی سے باہرہو،متصور ہوہی نہیں سکتی۔ ‘‘قرآن مجید میں ہے:’ ’وتوفی کل نفس ماعملت (۱۶:۱۱۱)‘‘{اورپورا دیا جائے گا ہر ایک نفس کو جو کچھ اس نے کمایاہے۔}یہاں توفی کا فاعل اﷲ تعالیٰ ہے اورمفعول نفس انسانی ہے۔تاہم یہ توفی نہ موت والی ہے اورنہ نیند والی۔
سوال نمبر:۳… ص۱۰پر لکھتے ہیں:’’پس توفی الگ فعل ہے اوررفع الگ اوردونوں کے معنے الگ الگ ہیںلہٰذا ’ ’انی متوفیک ورافعک الی‘‘میں وہ توفی مراد ہوگی جس کے وقوع پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الی اﷲ ہوا اوروہ سورئہ زمر کی آیت کے لحاظ سے موت کے وقت والی توفی ہی ہے۔ لاغیر۔‘‘
جواب… یہاں پر آپ عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الی اﷲ مان رہے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام زندہ انسان ہیں۔ کیونکہ روح کا نام عیسیٰ نہیں ہوسکتا۔جب عیسیٰ کا رفع ہوا تویہ رفع جسمانی ہی ہوگا اورچونکہ یہ توفی کے وقوع پرہواتوگویا آپ نے تسلیم کرلیا کہ توفی ایک جنس ہے او ررفع اس کی ایک نوع ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کی توفی آسمان پر زندہ اٹھائے جانے سے ہی ہوئی۔