جمیل…حمید صاحب جانے دیجئے اس تذکرہ کو۔آج انشاء اﷲ ہم یہاں سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر کے اٹھیںگے۔
اختر…اچھا اب آگے چلئے اورمرزا قادیانی کی کتاب(دافع البلاء ص۱۳،خزائن ج۱۸ ص۲۳۳) پڑھئے۔ آپ ارقام فرماتے ہیں:’’اے عیسائی مشنریو! اب ربنا المسیح مت کہو اور دیکھو آج تم میں ایک ہے جو اس مسیح سے بڑھ کرہے۔‘‘
حمید…بیشک ان عبارات سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے کہ مرزا قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اپنی فضیلت کااعلان کررہے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ آیا وہ ایسا کریں بھی تو کیاشرعاً یہ ناجائز ہے؟
اختر…جی ہاں!شریعت اسلامیہ میں یقینا ناجائز ہے۔ ہاں اگر مرزا قادیانی کوئی نئی شریعت لائے ہوں تو ممکن ہے وہاں جواز کی کوئی گنجائش نکل آئے۔مگر حدیث شریف میں تو اس قسم کے ایک واقعہ کا ذکر ہے کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں کچھ تقرار ہوگئی ۔یہودی نے کہا ہمارے نبی موسیٰ علیہ السلام آپ کے رسول ﷺ سے افضل ہیں۔ مسلمان کوطیش آگیا اس نے اسے ایک گھونسہ رسید کیا اورکہا کہ حضور سرور کونینﷺ کے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ بڑھتے بڑھتے بات محمد رسول اﷲﷺ تک پہنچ گئی۔ یہودی نے دعویٰ کیا کہ مسلمان نے نا حق مجھے پیٹا ہے۔ مسلمان کو یہ خیال تھا کہ حضورﷺ میری پاسداری کریںگے۔ کیونکہ میں نے آپ ہی کی حمایت میں مارا ہے۔مگر جب رسول کریمﷺ اصل حقیقت سے آگاہ ہوئے تو آپ نے الٹا مسلمان کوڈانٹا اور اسے معافی مانگنے پرمجبورکیا اورپھر فرمایا:’’لاتفضّلونی علی موسیٰ‘‘ {مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو}(اس لئے کہ اس میں ان کی توہین کاپہلو نکلتا ہے۔)
اﷲ اﷲ وہ رسول پاک(جس کی غلامی اور امت میں ہونے پر مرزا غلام احمد کو بھی ناز ہے) تو یہ فرمائے کہ مجھے کسی پرفضیلت نہ دو کہ مبادا اس سے کسی کی توہین نہ ہو۔مگر بخلاف اس کے مرزا قادیانی ہیں کہ ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ فضیلت ملے یا نہ ملے۔ مگر آپ ہی اپنے منہ ’’میاں مٹھو‘‘بن رہے ہیں۔ حضور پرنورﷺ کو خود خدا رب العزت دوجہاں کی سرداری عطاء فرما رہا ہے اورانبیاء عظام کا بھی امام بنارہا ہے۔ مگرآپ ہیں کہ انکسار سے جھکے جاتے ہیں اور جب بحکم خدا اصل حقیقت صحابہ کو بتاتے ہیں تو ساتھ ساتھ ’’ولا فخر ولا فخر‘‘فرماتے جاتے ہیں کہ میں اس پر فخر نہیں کرتا خدا تعالیٰ نے ہی مجھے عزت بخشی ہے۔