ہجرت کرنے والا مجسم، محدود المکان اورذوجہت ہے اوررسول اﷲ بھی مجسم،محدود المکان اورذوجہت ہیں۔لیکن ہجرت الی اﷲ کہنے سے ہجرت کرنے والے کی طرح اﷲ تعالیٰ کا مجسم،محدود المکان اورذوجہت ہونا لازم نہیں آتا۔ظاہر ہے کہ ہجرت الی اﷲ سے مراد اﷲ کے راستے میں اوراﷲ کی رضا جوئی کے لئے ہجرت کرنا ہے۔قرآن مجید میں ہے:’ ’وقرّبناہ نجیا (۱۹:۵۲)‘‘{ہم نے اس (موسیٰ) کو سرگوشی کرنے کے لئے قریب کیا۔}
اﷲ کی شان تو یہ ہے کہ :’ ’نحن اقرب الیہ من حبل الورید (۵۰:۶)‘‘{یعنی ہم اس (انسان) کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔}موسیٰ علیہ السلام انسان ہیں۔ان کو قریب کرنے سے قریب کرنے والے یعنی اﷲ تعالیٰ کا مجسم، محدود المکان اورذوجہت ہونا لازم نہیں آتا۔بلکہ موسیٰ کا اﷲ تعالیٰ کے ہاں تقرب ظاہرہوتاہے۔’’رفع‘‘ کا لفظ ’’وضع‘‘ کے مقابل ہے۔ شان کے لائق نہیں۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم کے ساتھ خدا کی طرف اٹھایاجانا ایک محال امر کو مستلزم ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رفع والی توفی سے مراد یہی ہو سکتی ہے کہ سورئہ زمر کی حصر یہ آیت کے مطابق ان کے اپنے بیان کی رو سے ان کی موت والی توفی ہوئی اور موت پر رفع الی اﷲ سے مراد رفع روحانی ہی ہوسکتا ہے۔نہ کہ رفع جسمانی جو محال ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔‘‘
جواب… ص۴پر آپ نے توفی کے معنی قبض روح کئے ہیں۔حالانکہ توفی لفظ مفرد ہے اور قبض روح مرکب،لہٰذا یہ معنے درست نہیں۔اسی لئے سورئہ زمر کی آیت میں صرف یتوفی نہیں کہا، بلکہ یتوفی الانفس کہا۔اگر مفرد توفی کے معنے مرکب قبض روح ہیں۔ تو لفظ النفس کی کیاضرورت تھی؟ پس ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی معنی مطلق قبض کے ہیں۔ نہ قبض روح کے ۔
توفی کے وضعی اورحقیقی معنی ’ ’اخذ لشی وافیا‘یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا ہیں۔توفی ایک جنس ہے۔اس کی نوع کا تعین کرنے کے لئے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
سورۂ آل عمران کی آیت’ ’انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘ میں ضمیر کا مرجع عیسیٰ ہیں جوکہ جسم اورروح کا مرکب ہیں۔یہاں توفی کی نوع رافعا الیّ کے قرینے سے نیند متعین ہوگی۔کیونکہ نیند اوررفع جسمی میں منافات نہیں۔’ ’رافعک الیّ‘‘کہنے سے خدا کا مجسم ، محدود المکان اورذوجہت ہونا لازم نہیں آتا۔قرآن مجید میں ہے:’ ’ومن یخرج من بیتہ مھا جرا الی اﷲ ورسولہ(۴:۱۰۰)‘‘{اورجو کوئی اپنے گھر سے نکلے گا ہجرت کرتے ہوئے اﷲ کی طرف اوراس کے رسول کی طرف۔} ہجرت کرنے والا مجسم، محدود المکان اورذوجہت ہے اوررسول اﷲ بھی مجسم،محدود المکان اورذوجہت ہیں۔لیکن ہجرت الی اﷲ کہنے سے ہجرت کرنے والے کی طرح اﷲ تعالیٰ کا مجسم،محدود المکان اورذوجہت ہونا لازم نہیں آتا۔ظاہر ہے کہ ہجرت الی اﷲ سے مراد اﷲ کے راستے میں اوراﷲ کی رضا جوئی کے لئے ہجرت کرنا ہے۔قرآن مجید میں ہے:’ ’وقرّبناہ نجیا (۱۹:۵۲)‘‘{ہم نے اس (موسیٰ) کو سرگوشی کرنے کے لئے قریب کیا۔}
اﷲ کی شان تو یہ ہے کہ :’ ’نحن اقرب الیہ من حبل الورید (۵۰:۶)‘‘{یعنی ہم اس (انسان) کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔}موسیٰ علیہ السلام انسان ہیں۔ان کو قریب کرنے سے قریب کرنے والے یعنی اﷲ تعالیٰ کا مجسم، محدود المکان اورذوجہت ہونا لازم نہیں آتا۔بلکہ موسیٰ کا اﷲ تعالیٰ کے ہاں تقرب ظاہرہوتاہے۔’’رفع‘‘ کا لفظ ’’وضع‘‘ کے مقابل ہے۔