’’یہ لوگ(عیسائی) اس شخص (یسوع مسیح)کو تمام عیبوں سے مبرّا سمجھتے ہیں۔ جس نے خود اقرار کیا کہ میں نیک نہیں۔‘‘ (انجام آتھم ص۳۸، خزائن ج۱۱ص۳۸)
اور جس نے شراب خوری اور قمار بازی اورکھلے طور پردوسروں کی عورتوں کو دیکھنا جائز رکھ کر بلکہ خود آپ ایک بدکار کنجری سے اپنے سر پر حرام کی کمائی کا تیل ڈلوا کر اور اس کو یہ موقعہ دے کر کہ وہ اس کے بدن سے بدن لگائے۔اپنی تمام امت کو اجازت دے دی کہ ان باتوں میں سے کوئی بھی حرام نہیں۔‘‘ (انجام آتھم ص۳۸، خزائن ج۱۱ص۳۸)
اب غور فرمائیے کہ اس جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کس قدر الزام لگائے گئے۔انہیں شرابی کہا،زانی کہا،قمار باز کہا اورپھر انہی امور کی تلقین کرنے والا قرار دیا ۔آپ خود ہی انصاف فرمائیے کہ کیا یہ سب کچھ کہنے لکھنے اورڈنکے کی چوٹ پر شائع کرنے کے باوجود مرزا قادیانی مسلمان ہی رہیںگے یا کافر ہوںگے؟
منظور…میں یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ حضرت قادیانی کی کتاب( انوار الاسلام ص۳۴، خزائن ج۹ص۳۴) کامطالعہ بھی فرمالیں ۔جس میں آپ لکھتے ہیں:’’اور اگر یہ اعتراض ہے کہ کسی نبی کی توہین کی ہے اور وہ کلمہ کفر ہے، تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ’’لعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘ اوراہم سب نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اور تعظیم سے دیکھتے ہیں۔بعض عبارات جو اپنے محل پرچسپاں ہیں وہ بہ نیت کی توہین نہیں بلکہ بتائید توحید ہیں۔‘‘
اختر…بہت خوب!اس سارے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ گالیاں تو ہم نے ضرور دی ہیں۔ مگر بہ نیت توہین نہیں دیں۔بلکہ بتائید توحید دی ہیں۔کیوں حمید صاحب!سمجھے آپ؟کیا عجیب منطق ہے آپ بھی اگر کسی کو گالیاں دیں توبعد میں یہ کہ دیا کریں کہ حضور میں نے بہ نیت توہین آپ کو گالیاں نہیں دیں۔ بلکہ اپناجوش ٹھنڈا کرنے کے لئے دی ہیں۔آپ ناراض نہ ہوں۔جدید نبی کا فلسفہ یہی ہے۔
جمیل…اورمولانا لطف یہ ہے کہ جب مرزا قادیانی سے اصل اعتراض کا جواب بن نہیں پڑا تو یہ کہہ دیا کہ ’’لعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘کوئی پوچھے کہ جھوٹا کون ہے آپ یا معترض؟ہمیں تو اس عبارت سے یہ پتہ بھی نہیں چل سکا کہ اس لعنت کا مستوجب کون ہے۔
ظہور…بھائی آپ نے مجھے منصف قراردیاتھا۔اس لئے میں اب تک خاموش رہا اور فریقین کی