کا مطالعہ کریں تو آپ کو ان کی یہ عبارتیں بھی ضرور نظرآئیں:’’ہذا ماکتبنا من الاناجیل علے سبیل الالزام وانا نکرم المسیح ونعلم انہ کان تقیا ومن الانبیاء الکرام‘‘
یعنی’’ہم نے یہ باتیں از روئے اناجیل بطور الزام لکھی ہیں۔ورنہ ہم تو مسیح کی عزت کرتے ہیں اوریقین کرتے ہیں کہ وہ پارسا اوربرگزیدہ نبیوں سے تھے۔‘‘
پھر دوسری جگہ رسالہ( تحفہ قیصریہ ص۲۳،خزائن ج۱۲ص۲۷۵)پربھی مرزا قادیانی ارقام فرماتے ہیں:’’جس قدر عیسائیوں کو حضرت یسوع مسیح سے محبت کادعویٰ ہے۔وہی مسلمان کو بھی ہے۔ گویا آنجناب کا وجود عیسائیوں اورمسلمانوں میں ایک مشترکہ جائیداد کی طرح ہے۔‘‘
اگر آپ مرزا قادیانی کے ان خیالات کو بھی اسی آنکھ سے دیکھیں جس آنکھ سے ان اقوال کودیکھ رہے ہیں تو معلوم ہو جائے کہ مرزا کے دل میں کس قدر ان کی عزت ومحبت جاگزیں ہے۔
اختر…جی ہاں!یہ عبارات بھی میری نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں اورمیں چاہتا تھا کہ آپ خود ہی ان کو پیش کریں تاکہ پڑھے لکھے لوگ اندازہ لگاسکیں کہ مرزا قادیانی بھی عجیب پیندے کے بدھنے ہیںکہ کبھی کچھ لکھتے ہیں اور کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں۔کیاحمید صاحب اب بھی آپ سمجھے یا نہیں کہ مرزا قادیانی کے کلام میں بہت بڑاتناقض ہے۔جس کی وجہ سے وہ ایک لائق مصنف بھی نہیں کہلا سکتے۔
حمید…ہاں تناقض ضرور ہے۔مگر اس کی وجہ کیاہے؟
اختر…صحیح وجہ تو خالد یا منظور صاحب ہی بتائیںگے۔جو ان کے مرید اوروکیل ہیں۔اگر میں عرض کروں گا توشکایت ہوگی۔
حمید…نہیں نہیں وہ کیا بتائیںگے۔آپ ہی فرمائیں ۔اگر انہیں اس پر کوئی اعتراض ہوا تو کہہ دیںگے۔
اختر…اس کی ایک وجہ تووہی ہے جو خود مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ست بچن ص۳۰، خزائن ج۱۰ص۱۴۲ پر لکھی ہے کہ: ’’جس کے کلام میں تناقض ہوتا ہے وہ پاگل یا مجنوں ہوتا ہے۔‘‘ہم تومرزا قادیانی کو ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ مگر جب ان کی کتابوں کودیکھا تومعلوم ہوا کہ وہ سچ فرماتے ہیں۔ یقینا مجنون ہیں۔مراقی ہیں۔ اپنی دماغی کمزوری کے آپ قائل ہیں۔ مالیخولیا کے مریض رہ