جمیل…کہئے مولانا منظورالحسن ،اب اس کا جواب کیاہے؟
اختر… جی وہ کیا جواب دیںگے؟اگر دیں گے بھی تو مرزا قادیانی ہی اس سے بدنام ہوںگے۔ کیونکہ پھر ان کے کلام میں تناقض واقع ہوگا۔
منظور… تناقض کیوں واقعہ ہوگا یہ محض آپ کی سمجھ کا قصور ہے۔ ورنہ مرزا قادیانی جو کچھ فرما گئے ہیں وہ یقینا صحیح ہے۔
خالد… آپ نے فرمایا تھا کہ یہ مرز اقادیانی کی تصانیف سے ثابت کریں کہ وہ یسوع اور تھا۔ لیجئے ہم ثابت کئے دیتے ہیں کہ حضرت مرزا قادیانی (ضمیمہ انجام آتھم ص۹،خزائن ج۱۱ ص۲۹۲ حاشیہ) پر لکھتے ہیں:’’اورمسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا اور پادری اس بات کے قائل ہی کہ یسوع وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا۔‘‘
اس عبارت سے صاف عیاں ہے کہ حضرت مرزا قادیانی نے جس یسوع کے متعلق توہین آمیز کلمات(اور وہ بھی بقول یہود) استعمال کئے ہیں،وہ اس عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق نہیں جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔بلکہ وہی یسوع ہے جس کو آپ نے عبارت بالا میں عیسائیوں کا خدا لکھاہے۔
اختر… میرا خیال تھا کہ آپ میرے ان پیش کردہ حوالوں سے یہ تسلیم کرلیں گے کہ مرزا قادیانی نے قرآنی عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم اورانجیلی یسوع مسیح کو دو جداگانہ شخصیتیں قرار نہیں دیا(اور نہ ہی آ پ کی اس پیش کردہ عبارت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ دونوں شخصیتیں الگ الگ ہیں)بلکہ وہ تو ان دونوں کو ایک ہی ذات قرار دے رہے ہیں۔ اگرآپ پہلے حوالوں سے نہیںسمجھ سکے تو لیجئے (چشمہ مسیحی ص۶۷،خزائن ج۲۰س۳۸۱) ملاحظہ فرمائیے۔ مرزا قادیانی اس کے حاشیہ پرصاف لکھتے ہیں:
’’یہ اعتقاد رکھنا پڑتا ہے کہ جیسا ایک بندہ خداعیسیٰ نام جس کو عبرانی میں یسوع کہتے ہیں،تیس برس تک موسیٰ کی شریعت کی پیروی کرکے خداکامقر ب بنا۔‘‘
کہئے،اب بھی سمجھے یا نہیں؟مرزا قادیانی کہہ رہے ہیں کہ وہی ہمارا عیسیٰ ہے جسے عبرانی میں یسوع کہتے ہیں۔گویا نام دو ہیں،مگرذات ایک ہی ہے۔
حمید… مولانا ہم تو سمجھ گئے کہ بات ایک ہی ہے۔ مگر خیر چونکہ یہ نہیں مانتے اس لئے اب