نہیں ہیں بلکہ وہ یسوع مراد ہے جسے عیسائیوں نے خدابنارکھا تھا اورحضرت صاحب اسی یسوع کے متعلق انہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ تو ایسا اورایسا تھا۔ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آپ ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ان کے متعلق توآپ (کتاب البریہ ص۹۳،خزائن ج۱۳ص۱۹۹)پر خودلکھتے ہیں کہ:
’’ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راست باز مانتے ہیں۔توپھرکیونکر ہماری قلم سے ان کی شان میںسخت الفاظ نکل سکتے ہیں۔‘‘
اختر…کیوں جناب سنا آپ نے مولانا منظوالحسن فرماتے ہیں کہ صرف یہ نہیں فرماتے بلکہ اکثر لکھے پڑھے قادیانی یہی کہا کرتے ہیں کہ وہ یسوع اورتھا جو عیسائیوں کا معبود تھا اور جسے وہ ابن اﷲ کہا کرتے تھے۔چنانچہ اسی کی شان میں حضرت مرزا قادیانی نے یہ قصائد لکھے ہیں ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایسا نہیں کہاگیا۔
اب ان کا فرض یہ ہے کہ مرزا قادیانی کی تصانیف سے یہ ثابت کریں کہ وہ یسوع اور تھا۔ اگر یہ ثابت نہ کر سکیں اوریقینا نہ کرسکیںگے توپھر سنئے میں مرزا قادیانی ہی کی تصانیف سے یہ ثابت کرنے کے لئے تیارہوں کہ خود حضرت نے عیسائیوں کے یسوع مسیح اور عیسیٰ علیہ السلام کو ایک ہی وجود قرار دیاہے اور انہیں دو الگ الگ وجود قرارنہیںدیا۔یہ دیکھئے میرے پاس مرزا قادیانی کی مشہورکتاب(توضیح المرام ص۳،خزائن ج۳ص۵۲)پرمرزاقادیانی خود تسلیم کرتے ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم یسوع اورمسیح ایک ہی شخص ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
’’جن نبیوں کا اسی وجود عنصری کے ساتھ آسمان پرجانا تصور کیا گیا ہے۔ وہ دونبی ہیں۔ ایک یوحنا جس کا نام ایلیا اورادریس بھی ہے۔دوسرے مسیح ابن مریم جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔‘‘
کیوں جناب!اب اس سے بڑھ کر کوئی اورثبوت مطلوب ہے۔لیجئے اور سن لیجئے مرزا قادیانی (اخبار الحکم مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۰۳ء ص۱۶کالم ۳)میںیوں ارقام فرماتے ہیں:’’آج تک انہی خیالات سے وہ لوگ (شریر یہودی) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام کو جو یسوع ہے،یسو بولتے ہیں۔یعنی بغیر ع کے اوریہ ایک ایسا گندہ لفظ ہے جس کاترجمہ کرناادب سے دور ہے اور میرے دل میں گزرتا ہے کہ قرآن کریم نے جو حضرت مسیح علیہ السلام کا نام عیسیٰ علیہ السلام رکھا وہ اسی مصلحت سے ہے کہ یسوع کے نام کو یہودیوں نے بگاڑ دیاتھا۔‘‘