’’ہماری قلم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو کچھ خلاف شان ان کے نکلا ہے۔ وہ الزامی جواب کے رنگ میں ہے اور وہ دراصل یہودیوں کے الفاظ ہم نے نقل کئے ہیں۔ افسوس اگر پادری صاحبان تہذیب اور خداترسی سے کام لیں اور ہمارے نبیﷺ کو گالیاں نہ دیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی طرف سے ان سے بیس حصے زیادہ ادب کاخیال رہے۔‘‘
اختر…خالد صاحب میں پھرآپ کو آپ کے علم کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مان لیا مرزا قادیانی نے یہ الزاماً لکھا ہے۔ مگر خدارا! مجھے ذرا یہ بتادیجئے کہ یہ کہاں کا ایمان اور اسلام ہے کہ اگر پادری حضورﷺ کو گالیاں دے کر دوجہاں کی رسوائی خریدیں تو مسلمان بھی یہود نامسعود کے اقوال کی آڑ لے کر حضرت مسیح علیہ السلام کی توہین کریں۔یہ بات بھی میں آپ کو اپنی طرف سے نہیں کہتا۔ بلکہ مرزا قادیانی کا ارشاد بھی یہی ہے۔سنئے وہ آپ کی تردید اورمیری تائید میں خو د فرماتے ہیں:
’’مسلمان سے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اگر کوئی پادری ہمارے نبیﷺ کو گالی دے تو ایک مسلمان اس کے عوض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۱۴۲)
جمیل… کمال ہے۔یہاں تو یہ فرمارہے ہیں کہ ایک مسلمان سے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا اور وہاں باقاعدہ گالیاں دے رہے ہیں۔
اختر… اجی حضرات آپ سب لکھے پڑھے ہیں۔ اس سے نتیجہ خود اخذ کیجئے کہ یا تو مرزا قادیانی اپنے قول کے مطابق خود مسلمان نہیں یا پھر پرلے درجے کے احمق،پاگل اورمنافق ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی کتاب(ست بچن ص۳۰،خزائن ج۱۰ص۱۴۲)پرخود یوں ارقام فرماتے ہیں:
’’کسی سچے اور عقلمند اورصاف دل انسان کے کلام میں ہرگز تناقص نہیں ہوتا۔ ہاں اگر پاگل اور مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طورپر ہاں میں ہاں ملا دیتا ہو تواس کا کلام بے شک متناقض ہو جاتاہے۔‘‘
اب فیصلہ آپ پر ہے کہ آیا مرزا قادیانی کے ان دونوں کلاموں میں کچھ تناقض ہے یا نہیں؟خالد صاحب یا ان کے رفیق محترم مولانا منظورالحسن صاحب ہی ارشاد فرمائیں کہ میں کچھ اپنی طرف سے تو نہیں کہہ رہا؟
منظور… بات اصل میں یہ ہے کہ آپ مرزا قادیانی کے کلام کو سمجھ نہیں سکے۔جہاں انہوں نے یہودیوں کے حوالے سے یسوع یا مسیح کا نام لے کرکچھ لکھا ہے۔ وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام مراد