تمت فی منامھا فیمسک التی قضٰی علیھا الموت ویرسل الاخریٰ (ذمر: ۳۹تا ۴۲)‘‘پیش کی گئی۔جس کا ترجمہ یہ ہے کہ:
اﷲ تعالیٰ نفس انسانی کی توفی موت کے وقت کرتا ہے اورجس نفس کو موت نہ آئی ہو اس کی توفی نیند کی حالت میں کرتا ہے۔پس جس نفس پر موت وارد ہو اسے روکے رکھتا ہے اوردوسری صورت میں نیند کی حالت میں توفی یعنی قبض روح کرے تواس روح کی ایک مدت مقررہ کے لئے واپس بھیجتا رہتاہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے نفس یعنی روح کی توفی ہی ہوتی ہے اور اس کی دو صورتوں میں حصہ کیاگیا ہے۔پہلی صورت موت کے وقت قبض روح کی ہے اور دوسری صورت نیند کے وقت قبض روح کی ہے۔جس نفس پر موت وارد ہو اسے خدا تعالیٰ روک لیتا ہے اور دنیا میں واپس نہیں بھیجتا اورجس نفس پر موت وارد نہ ہونی ہو،خواہ وہ کوئی ہو عیسیٰ ہو یا کوئی اور ہو، اس کو توفی صرف نیند کی صورت میں ہوتی ہے اوراس کی روح صرف جسم کے اندر ہی قبض رہتی ہے۔پھر بیداری پرخداتعالیٰ اسے واپس کردیتاہے۔
سوال نمبر:۱… یہ آیت پیش کر کے محترم قاضی محمدنذیرصاحب نے آپ سے پوچھا تھا :’’فلما توفیتنی‘‘کے الفاظ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں آتے ہیں۔کیاان سے آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نیند کی صورت میں توفی وارد ہونے کے قائل ہیں؟آپ نے اس سے انکار کیا۔اس پر آپ کو قاضی صاحب نے کہا پھر توحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی کے لئے موت کی صورت متعین ہوگئی۔پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں فلما توفیتنی کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ جب تو نے مجھے وفات دے دی ۔پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بارے میں یہ آیت نص صریح اوردلیل قطعی ہے۔جس میں کسی تاویل کی گنجائش کا احتمال نہیں۔اس پر آپ نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی کی تیسری صورت وقوع میں آئی اوریہ رفع الجسم مع الروح کی صورت کی توفی ہے۔جوآیت ’ ’ماقتلوہ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘سے ثابت ہے۔آیت ’ ’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘کے وعدہ کے مطابق خداتعالیٰ نے ان کی توفی جسم مع الروح کے ساتھ آسمان پراٹھالینے سے کی ہے۔اس پر آپ نے قاضی صاحب نے کہاکہ قرآن مجید تو حضرت عیسی علیہ السلام کی توفی کے ذریعے خدا کی طرف اٹھا لینے کاذکر کررہاہے۔نہ آسمان کی طرف اٹھا لینے کاذکر اورنہ خدا تعالیٰ کی طرف کسی کا روح مع الجسم کی صورت میں اٹھایاجانا تو امر محال ہے۔ کیونکہ اس سے خدا کا مجسم محدود المکان اورذوجہت ہونالازم آتاہے اور یہ باتیں خدا کی