اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ وہ غلام قدر فصیح نے پنجاب پریس سیالکوٹ میں طبع کرایا ہے۔ اس کتاب کا (حاشیہ ص۳۶ ،خزائن ج۹ص۳۷)پڑھئے۔مرزاقادیانی ۱۸۹۴ء میں فرماتے ہیں کہ: ’’عبداﷲ آتھم کی جیسا کہ نورافشاں میں لکھا گیا ہے،صرف اب تک ۶۴ برس کی عمر ہے۔ جو میری عمر سے صرف چھ سات برس ہی زیادہ ہے۔‘‘
گویا بقول مرزا قادیانی ۱۸۹۴ء میں آتھم کی عمر ۶۴ برس کی تھی اورمرزا قادیانی کی عمر اس سے ۶،۷ برس کم تھی۔ دو برس بعد ۱۸۹۶ء میں آتھم مر گیا۔ آتھم کے مرنے کی دیر تھی کہ ۱۸۹۶ء میں مرزا قادیانی فوراً عمر میں اس سے برابر ہوگئے۔ یہ استدلال ہے یا بچوں کا کھیل؟ زندگی بھر تو مرزا قادیانی اورآتھم کی عمر میں ۶،۷ برس کا فرق رہا۔ لیکن ان میں سے ایک کے مر جانے سے دونوں کی عمریں برابر ہوگئیں۔ ایسی ڈھکوسلے بازی ایک عالم کی زبان سے زیب نہیں دیتی۔ ممکن ہے قاضی صاحب خود بھی غور فرمائیں تو انہیں اس استدلال پرہنسی آجائے کہ یہ کیا حرکت ان سے سرزد ہوئی؟۔
الزامی جواب نمبر۱
’’میرے نزدیک حضرت مسیح موعود کی مندرجہ ذیل تحریر سے ’’مجھے دکھلاؤ کہ آتھم کہاں ہے۔اس کی عمرتومیری عمر کے برابر تھی۔ یعنی قریب ۶۴ سال کے۔‘‘(اعجاز احمدی ص۳، خزائن ج۱۹ ص۱۰۹)یہ نتیجہ نکالنا کہ چونکہ آتھم ۲۷؍جولائی ۱۸۹۶ء کو مرا۔(انجام آتھم ص۱،خزائن ج۱۱ص۱)اس لئے آپ کی عمر ۷۶ برس ہوئی،درست نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود نے جس رنگ میںاپنی عمر آتھم کے برابر ظاہر کی ہے۔وہ ایسا نہیں کہ ایک حوالہ کو لے کر نتیجہ نکالاجائے۔آتھم کے مقابلے میں جس امر پر آپ زور دیناچاہتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہم دونوں پرقانون قدرت یکساں موثر ہے۔‘‘ (بیان عبدالرحیم صاحب درد، مندرجہ اخبارالفضل)
الزامی جواب نمبر۲
بدر۸؍اگست ۱۹۰۴ء ص۵کالم۴ملاحظہ فرمائیں:’’حضرت مرزا قادیانی نے کتاب اعجاز احمدی کی تصنیف کے وقت جو آپ کی عمر تھی۔اس کامقابلہ عبداﷲ آتھم کی عمر سے کیاہے۔ اعجاز احمدی ۱۹۰۲ء کی تصنیف ہے۔(کتاب البریہ ص۱۴۶،خزائن ج۱۲ص۱۷۷سطر۷)میںآپ تحریر فرماتے ہیں کہ اب میری ذاتی سوانح یہ ہیں کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے