کہ مرزا قادیانی نے فلاں جگہ یہ لکھا ہے کہ میرے والد کی وفات ۱۸۷۶ء میں ہوئی۔ جو صاحب جرأت اور استقلال کا ثبوت دیتے ہوئے صرف اتنامطالبہ پورا کرنے کی سعی فرمائیں گے کہ ’’مرزا قادیانی نے اپنی ۶۸ یا۶۹ سالہ زندگی میں کسی جگہ کسی وقت اور کسی تحریر میں یا کسی تقریر میں کسی کتاب میں یا کسی رسالہ میں کسی اشتہار میں کسی سرکاری یا غیر سرکاری ریکارڈ میںصرف اتنے الفاظ ہی تحریر کئے ہوں کہ میرے والد صاحب کی وفات ۱۸۷۶ء میں ہوئی۔‘‘ تو وہ ہم سے انعام لینے کا مستحق ہو گا۔ حق اورباطل کے فیصلہ کے لئے یہی کافی ہے۔ فاتوابرھانکم ان کنتم صادقین!
مزید تحریف کی گئی
مرزاقادیانی کے منجھلے بیٹے میاں بشیر احمد نے صرف سینین کے رد وبدل کو اپنے دادا جان کی تاریخ وفات اور والد صاحب کی تاریخ پیدائش پر ہی آزما کر بس نہیں کیا۔ بلکہ کئی اور جگہ پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔
مرزا بشیر احمد نے اپنے بھائی غلام قادر کی وفات ۱۸۸۱ء میں لکھی ہے۔ بشیر احمد لکھتے ہیں کہ: ’’ان کی وفات ۱۸۸۳ء میں ہوئی (مرزا محمود احمد لکھتے ہیں ۱۸۸۴ء میں ہوئی) (سیرت مسیح موعود ص۶،۲۸)’’وجہ اس کی یہ لکھتے ہیں کہ حضرت صاحب کو یاد نہیں رہا۔‘‘
مرزا قادیانی نے (حقیقت الوحی ص۲۵۲،خزائن ج۲۲ص۲۶۳)پرمولوی کرم الدین کے مقدمہ میں سفر ۱۹۰۴ء میں لکھا ہے۔
مرزابشیراحمد اتفاق کرتے ہیں کہ یہ سفر ۱۹۰۳ء میں ہوا ۔وجہ اس کی یہ لکھتے ہیں کہ ’’حضرت صاحب کو اس بارے میں ذہول ہواہے۔‘‘
مرزاقادیانی نے سرخی کے چھینٹوں والا نشان ۱۸۸۴ء میں لکھا ہے۔
مرزابشیر احمد نے اس کو ۱۸۸۳ء میں لکھا ہے ’’ڈاکٹر بشارت احمد نے اس کو ۱۸۸۵ء میں لکھا ہے۔‘‘ (مجدد اعظم ص۷۵)
’’وجہ اس کی یہ بتائی کہ حضرت صاحب نے اسے یونہی تخمینی رنگ میں لکھا ہے۔‘‘
مرزا قادیانی نے اپنا دہلی کا نکاح ۱۸۸۵ء میں بیان کیا ہے۔
مرزا بشیر احمد اس کو ۱۸۸۴ء میں لکھتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ بتائی کہ: ’’حضرت صاحب