کہ آپ زحیر کے عارضہ میں مبتلا ہیں۔ لیکن مرض کی شدت کم ہوچکی ہے۔ دوسرے دن ۲؍جون ۱۸۷۶ء جبکہ آپ چوبارہ پر استراحت فرمارہے تھے۔ ایک خادم جمال کشمیری آپ کے پاؤں دبا رہاتھا کہ آپ پرالہام نازل ہوا ’’والسماء والطارق‘‘کہ آسمان کی قسم ہے اور رات کے حادثہ کی قسم ہے اوراس کی تفہیم یہ ہوئی کہ حضور کے والد ماجد آج غروب آفتاب کے وقت اس جہاں سے رحلت فرما جائیں گے۔‘‘ (تاریخ احمدیت ج۱ص۱۹۳)
ایک مغالطہ اوراس کا جواب
میاں بشیر احمد لکھتے ہیں کہ’’ہمارے داد ا صاحب کی تاریخ وفات ۱۸۷۴ء نہیں ہے۔ بلکہ میری تحقیق میں صحیح تاریخ ۱۸۷۶ء ہے۔ جیسا کہ حضرت صاحب(مرزا قادیانی) نے ’’کشف الغطائ‘‘ کے حوالہ سے سرکاری ریکارڈ میں لکھی ہے۔’’حضرت مسیح موعود کی بعض دوسری تحریروں سے داد ا صاحب کی وفات ۱۸۷۶ء ثابت ہوئی ہے۔ (دیکھو کشف الغطائ)چونکہ سرکاری ریکارڈ بھی اسی کا موئد ہے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۷۴ء محض یاد کی بناء پرلکھا ہے۔ اس لئے ذہول ہوگیاہے۔‘‘
( سیرت المہدی سوم ج۱۹۴)
جواب :یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ میاں بشیراحمد مرزاغلام مرتضیٰ کے پوتے ہیں۔ لیکن ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ بات ہم تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ انہوں نے ’’کشف الغطائ‘‘ کا حوالہ درست دیا ہے۔کشف الغطاء جو منیجر بکڈپوتالیف واشاعت قادیاں نے دسمبر۱۹۳۶ء میں بار دوم شائع کرائی۔ہمارے پاس اس وقت موجود ہے۔ اس کتابچہ کے کل ۳۶ صفحات ہیں۔ اول سے آخر تک مطالعہ کیا ہے۔ اس کتابچہ کے کسی ایک صفحہ یا سطر میں بھی مرزا قادیانی نے اپنے والد کے سن وفات ۱۸۷۴ء کی کہیںتردید کی ہے اور نہ ہی کسی جگہ یہ فقرہ درج پایا ہے کہ میرے والد کی وفات ۱۸۷۶ء میں ہوئی۔ معلوم نہیں کہ قادیانیوں کے نزدیک وہ کون سا سرکاری ریکارڈ ہے جو اس مفروضہ حوالے کی تائید کررہا ہے۔ میاں بشیراحمد کے یہ الفاظ: ’’حضرت مسیح موعود کی بعض دوسری تحریروں سے داداصاحب کی وفات ۱۸۷۶ء میں ثابت ہوتی ہے۔‘‘
مطالبہ: ہم کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کی بعض دوسری تحریریں ہوں یا بعض تیسری، بیسویں اور سینکڑوں ہی نہیں۔ بلکہ بعض ہزارہا بھی کیوں نہ ہوں۔ لیکن آج تک برس ہابرس سے کسی شخص میں اتنی جرأت تو نہ ہو سکی کہ مرزاقادیانی کی صرف کسی ایک تصنیف سے ہی ثابت کر سکتا