کی طرف لوٹتے ہیں کہ نہ صرف مرزاقادیانی کی اولاد نے بلکہ تمام جماعت ہی نے مرزا قادیانی کی اس بات سے انکار کیا ہے اوران کی تحریرات کو پس پشت ڈال کر غلام مرتضیٰ کی وفات کا ایک نیا سن گھڑ لیا ہے۔ یعنی اس کی تاریخ ۱۸۷۴ء کی بجائے ۱۸۷۶ء بنادی گئی۔ تحریف۱۸۷۴ء کا۱۸۷۶ء بن گیا۔
بیان مرزا محمود احمد (مرزا قادیانی کا بڑابیٹا)
’’آپ کی عمر قریباً چالیس برس تھی جبکہ ۱۸۷۶ء میں آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوا۔‘‘ (سیرت مسیح موعودص۲۰)
بیان مرزا بشیراحمد(مرزاقادیانی کا منجھلا بیٹا)
۱… ’’ہمارے دادا (مرزا غلام مرتضیٰ) کی تاریخ وفات ۱۸۷۴ء میری تحقیق میں درست نہیں ہے۔ بلکہ صحیح تاریخ ۱۸۷۶ء ہے۔‘‘
۲… ’’۱۸۷۴ء محض یاد دہانی کی بناء پر لکھا ہے۔ اس لئے ذہول ہو گیا ہے۔‘‘
۳… ’’نزول المسیح ‘‘ کے تاریخی اندازے تخمینی ہیں اوریقینی نہیں کہ صحیح ہوں۔‘‘
۴… ’’چونکہ الہام ’’والسماء والطارق‘‘دادا صاحب کی وفات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے اس کے متعلق بھی ۱۸۷۶ء تاریخ ہی درست سمجھی جائے گی۔‘‘
(سیرت المہدی ۳ص۷۰۸ روایت نمبر ۷۶۸)
بیان ڈاکٹربشارت احمد (مؤلف مجدد اعظم)
۱… ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ (یعنی مرزاغلام احمدکے) والد بزرگوار کی وفات ۱۸۷۶ء میں ہوئی۔‘‘
۲… ’’۱۸۷۶ء میں آپ کے والد ایک مرتبہ ہی بیمار ہوکر فوت ہوئے۔‘‘
(مجدداعظم ج۱ص۶۴)
بیان دوست محمد شاہد(مؤلف تاریخ احمدیت)
’’حضرت بانی سلسلہ علیہ السلام اوائل جون ۱۸۷۶ء میںچیف کورٹ میں دائر ایک مقدمہ کے سلسلہ میں لاہور تشریف فرما تھے کہ آپ کو عالم رویأ میں خبر دی گئی کہ آپ کے والد ماجد سفرآخرت پر روانہ ہونے والے ہیں۔ یہ اطلاع پاتے ہی آپ لاہور سے قادیان پہنچے اوردیکھا