’’اس وحی الٰہی کی گواہ روئت ایک بڑی جماعت ہے۔ اگر میں تفصیل سے لکھوں تو ایک ہزار سے بھی زیادہ ہوگا۔‘‘
مسلمان… مزید تسلی کے لئے آپ اپنی کسی اورکتاب سے حوالہ بیان فرمائیے کہ واقعی آپ کے والد صاحب کا انتقال ۱۸۷۴ء میں ہوا۔
مرزاقادیانی… آخر وجہ کیا ہے کہ آپ مجھ سے بار بار ۱۸۷۴ء کے متعلق اپنی تحقیق کر رہے ہیں۔ کیا میرے ان دلائل سے آپ کی ابھی تسلی نہیں ہی نہیںہوئی؟
مسلمان… اگر آپ کوئی ایک آدھ حوالہ اپنی کسی اور کتاب سے بیان فرمادیجئے تو مزید تسلی ہو جائے گی۔
مرزاقادیانی… بہت بہتر، مزیدتسلی فرمائیے۔ میری تصنیف (کتاب البریہ ص۱۴۶، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷) پریہ الفاظ درج ہیں کہ ’’میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی۔ میری عمر۳۴،۳۵ برس ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا۔‘‘ اب حساب کر لو ۱۸۳۹+۳۵=۱۸۷۴اور۱۸۴۰+۳۴=۱۸۷۴۔ حاصل یہ کہ میرے والد صاحب کی تاریخ وفات ۱۸۷۴ء ہی بنتی ہے۔ اب تو آپ کی تسلی ہو گئی ہوگی یا ابھی کچھ اوراطمینان کرنا چاہتے ہیں؟
مسلمان… ہم نے آپ کا بہت وقت صرف کیا۔ آپ کی بڑی مہربانی ہے کہ آپ نے نہایت وضاحت سے اپنے والد صاحب کا سال وفات بیان کردیاہے۔
مرزاقادیانی… میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آخر اتنی زبردست تحقیق اورجستجو کی وجہ کیا ہے؟
مسلمان… وجہ کیابتاؤں؟کچھ کہنے کی بات ہی نہیں۔
مرزاقادیانی… آخر پھر بھی کچھ وجہ تو ہوگی۔
مسلمان… سن لیجئے!آپ کے ہی بیٹے میاں بشیراحمد کہتے ہیں کہ ’’آپ نے اپنے والد مرزا غلام مرتضیٰ کی تاریخ وفات ۱۸۷۴ء محض یاد کی بناء پر لکھی اس لئے ذہول ہوگیاہے۔‘‘
مرزاقادیانی… میرے بیٹے بشیر احمد کے قصہ کو چھوڑئیے۔ وہ تو اپنے دادا کی وفات کے ۱۹ برس بعد ۱۸۹۳ء میں پیداہوا۔ اس کو کیا معلوم ہوسکتا ہے۔ یقین میری بات پرکیجئے۔ جو اپنے باپ کی وفات پر لاہور سے قادیان پہنچاتھا۔
مرزاغلام مرتضیٰ کی تاریخ وفات ۱۸۷۴ء میں ثابت کرنے کے بعد اب ہم اس موضوع