(مرزا غلام مرتضیٰ) کے انتقال کو اٹھائیس برس ہوچکے ہیں۔‘‘
کیاآپ اتنا حساب بھی نہیں جانتے کہ اگر ۱۹۰۲ء میں سے ۲۸ منہا کئے جائیں تو باقی ۱۸۷۴ء ہی بنتے ہیں۔
مسلمان… ہماری مزید تسلی کے لئے کچھ تھوڑا بہت اوربیان فرمادیجئے۔
مرزاقادیانی… ویسے تو میںنے جو کچھ بیان کیا ہے۔آپ کی تسلی اسی سے ہو جانی چاہئے تھی۔ لیکن مزید تسلی جتنی چاہو کرو۔ میں نے ’’نزول المسیح‘‘ کے اسی ص پر۳ دفعہ بار بار یہ تحریر کیا ہے کہ میرے والد صاحب کے انتقال کو ۱۹۰۲ء تک پورے ۲۸ سال گزر چکے ہیں۔ میری کتاب نزول المسیح نایاب تونہیں،عام ملتی ہے۔منگوا کر دیکھ لیجئے۔بار بار ۳ دفعہ یہی بات دہرائی گئی ہے کہ والد صاحب کا انتقال ۱۸۷۴ء میں ہواتھا۔
مسلمان… کیا آپ نے اپنے والدصاحب کی تاریخ وفات اور الہام ’’الیس اﷲ بکاف عبدہ‘‘ کا تذکرہ نزول المسیح کے علاوہ کسی اورکتاب میں بھی کیا ہے۔وہ حوالہ درکار ہے۔ جس سے سن عیسوی کا تعین ہوسکے۔
مرزا قادیانی… ہاں!بڑی خوشی سے تحقیق کیجئے۔ میں نے اپنی کتاب (اربعین نمبر۳ص۷، خزائن ج۱۷ص۳۹۳)جو۱۹۰۰ء میں لکھی گئی،والدصاحب مرحوم کی وفات کاتذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے،الہام’’الیس اﷲ بکاف عبدہ‘‘جو میرے والد صاحب کی وفات پر ایک انگشتری پر کھودا گیاتھا اورامرتسر سے ایک مہرکن سے کھدوایاگیاتھا۔ وہ انگشتری اب تک موجود ہے اور وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے تیار کرائی اوربراہین احمدیہ موجود ہے جس میں یہ الہام لکھا گیا ہے اورجیسا کہ انگشتری سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بھی ۲۶ برس کازمانہ ہے۔
اربعین ۱۹۰۰ء میں لکھی گئی۔اس سے ۲۶ برس پیشتروالد صاحب کی وفات کے روز مجھے الہام’’الیس اﷲ بکاف عبدہ‘‘ہوا۔ ۱۹۰۰ء میں سے ۲۶ منہا کردو۔وہی میرے والد کی وفات کا سن ۱۸۷۴ء نکلتاہے۔
مسلمان… اچھا اتنا فرمائیے کہ آپ کے والد صاحب کی وفات اوروحی جو اس وقت ہوئی،اس کا کوئی گواہ بھی ہے؟
مرزاقادیانی… میری کتاب (نزول المسیح ص۱۱۶حاشیہ،خزائن ج۱۹ص۴۹۴)پریہ الفاظ درج ہیں: