کہ یہ پیشگوئی میرے والد کے متعلق ہے اوروہ آج ہی غروب آفتاب کے بعد وفات پائیں گے۔ اس پیشگوئی میں مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ پھر غنودگی ہوئی اور یہ الہام ہوا ’’الیس اﷲ بکاف عبدہ‘‘یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں؟‘‘
(نزول المسیح ص۱۱۶،۱۱۷خزائن ج۱۸ص۴۹۴،۴۹۵)کاخلاصہ بیان کرکے ہم پہلے اس بات کو ہی لیتے ہیں کہ مرزا قادیانی کو کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی کہ آپ نے سہواً اپنے والد صاحب کی تاریخ وفات ۱۸۷۴ء تحریر کر دی ہو اور وفات ہوئی دراصل کسی اور ہی سن عیسوی میں ہو۔ محض اس بات کی تحقیق کے لئے اگر براہ راست جناب مرزا قادیانی سے ہی مکالمہ کیا جائے تو یہ بات مرزا غلام مرتضیٰ کی تاریخ وفات معلوم کرنے کے لئے فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ مکالمہ مرزا قادیانی کی ہی تحریرات کے پیش نظر مرتب ہے:
مسلمان: جناب مرزا قادیانی!یہ فرمائیے کہ آپ کے والد صاحب کا انتقال کس سن عیسوی میں ہوا؟
مرزاقادیانی…میرے والد صاحب کا مرزاغلام مرتضیٰ کا انتقال سن عیسوی۱۸۷۴ء میںہوا۔
مسلمان… کیا آپ نے اپنی کسی کتاب میں یہ تاریخ وفات درج بھی فرمائی ہے؟
مرزاقادیانی… میں نے اپنی کتاب نزول المسیح کے (ص۱۱۶،خزائن ج۱۸ص۴۹۴)پرسب سے پہلے پیش گوئی اپنے والد صاحب کی وفات کے متعلق ہی کی ہے جو ۱۸۷۴ء میں ہوئی۔ اسی ص کی دائیں جانب ’’تاریخ بیان پیش گوئی‘‘ کے نیچے موٹے الفاظ میں ۱۸۷۴ء درج ہے۔
مسلمان… جناب والا! آپ کو اپنے والدصاحب کی تاریخ وفات کے متعلق کوئی شبہ تو نہیں ہے؟
مرزاقادیانی… مجھے قطعاً کوئی شبہ نہیں ہے۔ہفتہ کا روزتھا۔دوپہرکاوقت تھا۔جون کا مہینہ تھا۔سن عیسوی ۱۸۷۴ء تھا۔جس وقت مجھے یہ الہام’’والسماء والطارق‘‘ہوا۔ یہ میرے والد صاحب کی وفات کے متعلق تھا۔
مسلمان… آپ نے کسی اور تاریخ وفات کی تصدیق کی ہے ۔ہم مزید تحقیق کے لئے آپ سے تصدیق کرنا چاہتے ہیں۔
مرزاقادیانی… آپ کی مزید تسلی بھی کئے دیتاہوں۔میں نے اپنی کتاب(نزول المسیح ص۱۷۷، خزائن ج۱۸ص۴۹۵)پردرج کی ہے کہ ’’آج تک جو ۱۰؍اگست۱۹۰۲ء ہے۔ مرزا صاحب مرحوم