اس ضلالت کی بھلا کوئی حد وانتہا ہے کہ قرآن مجید کی وہ آیتیں جن کے مخاطب اور مصداق نبی کریمﷺ کی مقدس ذات ہے،انہیں اپنے اوپر منطبق کرتا ہے:
٭ ’’میں وحی کے بغیر نہیں کہتا۔‘‘ (اربعین نمبر۳ص۳۷،خزائن ج۱۷ص۴۲۷)
٭ ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے رحمت اللعٰلمین بناکر بھیجا ہے۔‘‘
(اربعین نمبر۳ص۲۳،خزائن ج۱۷ ص۴۱۰)
٭ ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے کوثر عطا کیا ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۵۸،خزائن ج۱۱ص۵۸)
یہ کفر وضلالت اس حد تک پہنچی کہ اس نبی کاذب نے الوہیت کا دعویٰ کردیا:
’’میں یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ میں ہی خدا ہوں اورمیں نے ہی یہ زمین آسمان پیداکئے ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۵۶۴،۵۶۵،خزائن ج۵ص ایضاً)
مرزاغلام احمد قادیانی نے کبھی یہ کہا کہ قرآن میں قادیان کا ذکرآیا ہے۔کہیں شہر دمشق کی قادیان سے مشابہت دی تاکہ مرزاکے دعویٰ مسیح موعود کے لئے ثبوت میسر آسکے۔ وہ جو نبوت بلکہ الوہیت تک کا دعویٰ کر ڈالتا ہے۔انگریزی حکومت کی نیاز مندی اوروفاداری پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حکومت انگریزی کو جو شان وشوکت اورفتوحات نصیب ہیں۔ان کا سبب میری ذات اور دعا گوئی ہے اورمیرا وجود انگریزی گورنمنٹ کے لئے بمنزلہ حرز سلطنت ہے۔یہی شخص انگریزی مجسٹریٹ کی عدالت میں اقرارنامہ داخل کرتا ہے کہ لوگوں کی رسوائی جن سے ہوتی ہے۔ میرے وہ الہامات اب شائع نہیں ہوا کریںگے اور میں خدا کے پاس ایسی درخواست کرنے سے اجتناب کروں گاجس سے کوئی شخص ذلیل یاموردعتاب الٰہی ہوتاہو۔’’خانہ سازنبوت‘‘ کا یہی مزاج اور عمل ہوناچاہئے۔
ایسے گھٹیا درجہ کا آدمی اس پست کردار اورجاہلوں جیسی سمجھ بوجھ کا انسان ۱؎ جس کی تحریروں میں شدید تناقض پایاجاتا ہے۔جس کے دعوے مجذوب کی بڑ سے بھی فروتر ہیں اورجس کے ہفوات وہذیانات کفر وارتداد سے لبریز ہیں کیا اس قابل ہے کہ اس کو اصل نبی یا بروزی وظلی نبی یا مسیح موعود اورمہدی منتظر یا مجدد وامام کا مقام دے۔اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے۔
۱؎ جو شخص انبیاء کرام کی تنقیص کرتا ہووہ اپنے قول کی صدائے بازگشت اوراپنے کرتوتوں کے ردعمل سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔