سلسلہ چلتا ہے۔پھر ۱۸۹۱ء میں وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی موت کا اعلان کر کے خود اپنے مسیح موعود ہونے کا مدعی بنتاہے اوراس کے بعد ۱۹۰۱ء میں اپنے نبی اوررسول ہونے کا اعلان کرتاہے۔اس اعلان کے بعد قادیان میں ’’جدید نبوت‘‘ کا باقاعدہ انسٹی ٹیوشن اورمحکمہ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ خود ’’علیہ السلام ‘‘ ہے اوراس کے ساتھی صحابہ اور’’رضی اﷲ عنہم ‘‘ ہیں۔اس کی بیوی ’’ام المومنین‘‘ ہے۔اس کے اقوال میں تضاد اورتناقض کا یہ عالم ہے کہ:
’’کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی ﷺ کے بعد ہرگز نہیں آسکتااور سیدنا مولانا محمدﷺ ختم المرسلین کے بعدکسی دوسرے مدعی نبوت ورسالت کو کاذب اورکافر جانتا ہوںاور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اوردائرہ اسلام سے باہر سمجھتاہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ص۲۵۵)مگروہ پھر ’’بروز‘‘اور’’ظل‘‘ کی اصطلاحات کو پس پیش ڈال کر اپنی ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔جس میں امر بھی ہے اورنہی بھی۔یہاں تک کہ ایک مستقل نبی اوررسول کی حیثیت سے فریضہ جہاد کی تنسیخ کا اعلان کردیتاہے اوراس طرح اپنے قول کے مطابق دائرئہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔کبھی کہتا ہے کہ میں فنا فی الرسول ہوں اورمجھے جو کمالات ملے ہیں وہ محمد رسولﷺ کے فیض اورواسطہ سے ملے ہیں۔مگر اس کے بعد وہ اپنے کو تمام انبیاء علیہم السلام بلکہ حضور خاتم النبیین ﷺ سے بھی افضل قرار۱؎ دیتا ہے۔
کبھی کہتا ہے کہ میں ابراہیم اورموسیٰ ہوں۔کہیں دعویٰ کرتا ہے کہ میں ہی محمد اوراحمد ہوں اوراس کے بعد اس کی فساد زدہ طبیعت نے جو جھرجھری لی تو یہ بھی کہہ دیا کہ ہندوؤں کا اوتار کرشن بھی میں ہی ہوں۔
مرزاقادیانی کہیں یہ کہتا ہے کہ مجھے مسیح ابن مریم ہونے کادعویٰ نہیں اورنہ میں تناسخ کا قائل ہوں۔مگر اس کی تردید اس کی اپنی تحریر میں،ان الفاظ میں ملتی ہے:
’’مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اوراستعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرادیا گیا اورآخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینہ سے زائد نہیں ،مجھے بذریعہ الہام کے مجھے مریم سے عیسیٰ بنا دیاگیا۔پس اسی طور سے میںابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح ص۴۷،خزائن ج۱۹ص۵۰)
۱؎ مرزائے قادیان کی تحریروں کے اقتباسات اوپر دیئے جاچکے ہیں۔ان کا اعادہ طوالت کا باعث ہوگا۔