پچھلے دنوں ہفت روزہ’’دعوت لاہور‘‘ ۲؍اکتوبر ۱۹۶۴ء اور’’الفضل‘‘ربوہ (چناب نگر) یکم نومبر۱۹۶۲ء میں جناب علامہ خالد محمودصاحب ایم اے پروفیسر ایم اے او کالج لاہور اورقاضی محمدنذیر صاحب لائل پوری مہتمم شعبہ نشر واشاعت اصلاح و ارشاد ربوہ کے مابین مرزاغلام احمد قادیانی کی عمر کے متعلق ایک دلچسپ بحث نظر سے گزری۔مرزاقادیانی کی تحریرات کی روشنی میں علامہ خالد محمو د صاحب کا دعویٰ ہے کہ مرزاقادیانی کی عمر ۶۷،۶۸ برس سے زیادہ نہیں۔ قاضی محمدنذیر کا بیان ہے کہ مرزا قادیانی اپنے الہام کے مطابق ۷۶ برس زندہ رہے۔ قاضی صاحب کے بیان کے مطابق اگر مرزا قادیانی کی کل عمر۷۶ سال ثابت ہو جائے تو وہ پیش گوئی کے مطابق صادق ٹھہرتے ہیں۔ علامہ خالد محمود صاحب کا بیان ہے کہ مرزا قادیانی نے ۶۸ برس کے قریب عمر پائی ہے اور وہ اپنے ہی مقرر کردہ معیار کی رو سے کاذب ہیں۔’’خدا کے فرستادہ‘‘ اور ’’مامور و مرسل‘‘ ہونے کے مدعی کی پیش گوئی کا اس طرح غلط نکلنا اس کے صدق وکذب جانچنے کا ایک بے غبار آئینہ ہے۔
اس تحریری بحث کے دوران ہی قاضی محمد نذیر کی بعض ایسی محرف عبارتیں نظر سے گزریں جن کو پڑھ کر ہم صرف افسوس ہی نہیں کرتے بلکہ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ قاضی صاحب جیسے شخص کے قلم سے جو کسی وقت جامعہ احمدیہ ربوہ (چناب نگر) کے پرنسپل رہ چکے ہیں اورموجودہ وقت میں شعبہ نشر واشاعت اصلاح وارشاد کا اہتمام ان کے سپرد اورجماعت احمدیہ میں ایک ممتاز علمی حیثیت کے بھی مالک ہیں۔جب وہ بھی دوسرے مصنفین کی کتب سے حو الجات تحریر کرتے ہوئے دیانت داری کا یہ مظاہرہ کرتے ہیں تو جماعت کے دیگر افراد کی نسبت ہم کیا گمان کر سکتے ہیں۔ ہاں! اس میں شک نہیں کہ قاضی صاحب موصوف کو جب ہم اس انداز میں دیکھتے ہیں وہ مرزا غلام احمد قادیانی سے انتساب رکھتے ہیں تو پھر ہماری یہ حیرانگی یکسر دور ہو جاتی ہے۔ البتہ اس لحاظ سے ہم جناب قاضی صاحب کے مشکور ہیں کہ انہوں نے اس مضمون کی تکمیل کے لئے ہمیں بھی کچھ نہ کچھ عرض کرنے کا موقع عنایت فرمایا ہے۔ ہماری صرف یہ گزارش ہے کہ:
۱… مرزا غلام احمدقادیانی نے اپنی عمر کے متعلق جو پیش گوئی کی تھی۔ وہ قطعی طور پرغلط ثابت ہوئی۔
۲… اس پیش گوئی کے غلط ہونے کے صدمہ میں جماعت احمدیہ کے علماء ہی نہیں بلکہ خلفاء بھی اپنی سابقہ تحریروں سے منحرف ہوئے ہیں؟۔