M
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد!
مدرسہ عربیہ قاسم العلوم فقیر والی کی مجلس شوریٰ منعقدہ ۹شوال المکرم ۱۳۸۴ھ مطابق ۱۳؍فروری ۱۹۶۵ء میں مدرسہ کی طرف سے ایک شعبہ تالیف وتصنیف کا قیام عمل میں لایاگیا۔جس کے صدر حضرت مولانا عبدالقدیر صاحب کیمبل پوری زید مجدہ،شیخ الحدیث مدرسہ ہذا اور ناظم مولوی تاج محمد صاحب نکودری مقرر ہوئے۔ اس شعبہ کی طرف سے پہلی تالیف بحمداﷲ شائع کی جارہی ہے۔
اس حقیر فقیر نے حضرت بمعیّت مولانا عبداللطیف صاحب،مدرس و مفتی مدرسہ ہذا وجناب خان محمدعبداﷲ خان صاحب ترین ممبر مجلس عاملہ مدرسہ ہذا مختلف مجالس میں کتاب کا مسودہ حرفاً حرفاً پورے غور وخوض سے سنا۔ مناسب مواقع پر مشورہ بھی دیاگیا۔ میری رائے میں یہ کتاب طالب حق کے لئے بحمداﷲ نہایت چمکتی ہوئی مشعل ہدایت ہے۔اس کتاب میں مرزاقادیانی کی عمر سے متعلق پیش گوئی کا کما حقہ تجزیہ کیاگیا ہے اورمرزاقادیانی کی اس پیش گوئی کو سچا ثابت کرنے کے لئے مرزا قادیانی کے پسماندگان نے جو بے شمار قلابازیاں کھائی ہیں اور ’’پنجاب چیفس‘‘ جیسی کتاب میں بھی جو روایتی تحریفات کی ہیں۔ فاضل مصنف نے اس سب کو طشت ازبام کردیا ہے۔ اس پیش گوئی کا کذب محقق ہونے سے تو مرزا قادیانی بقول خود دعویٰ نبوت میں غیر صادق ثابت ہوتے ہیں اور ان کے صدق وکذب جاننے کے لئے اس ایک پیش گوئی کی تحقیق ہی کافی ہے۔
بندہ فضل محمد عفا اﷲ عنہ
مہتمم مدرسہ عربیہ قاسم العلوم … فقیر والی ضلع بہاولنگر
حامداً ومصلیاً ومبسملا!اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے ابطال میں علماء ربانی نے عقلی و نقلی ودلائل وبراہین سے اپنی خدمات نہایت قابل قدر طریقوں سے پیش کی ہیں۔ قادیانی لٹریچر کی ہر شق پر مبسوط بحث کر کے اس کا غلط ہونا ثابت کیا ہے۔ تحریر ہذا کتاب و سنت کے کسی علمی مواد پرمشتمل نہیں۔ بلکہ نہایت عام فہم انداز میں مرزا قادیانی کی ایک پیشگوئی او ر اس سلسلہ میں قادیانی علماء کی تحریفات کی وہ دردناک داستان ہے جس کے تجزیہ سے علم و دیانت کی آنکھیں یکسر نیچی ہو جاتی ہیں اورارتداد کی گود میں جنم لینے والے نظریات پوری طرح بے نقاب ہو جاتے ہیں۔