مسیح موعود اورنبی اپنے ’’الہام‘‘ کے شائع نہ کرنے کا ’’اقرارنامہ‘‘انگریز مجسٹریٹ کے حضور پیش کررہا ہے۔آخر یہ کیا تماشا،سوانگ اورمضحکہ ہے؟
’’پہلے میرا عقیدہ یہ تھا کہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہمسر نہیں ہو سکتا۔کیونکہ وہ رسول تھے۔مگر بعد ازاں مجھ پر وحی کی بارش ہوئی۔مجھے اپنا سابقہ عقیدہ ترک کرناپڑا۔اب اﷲ مجھے رسول کہہ کر پکارتا ہے اورمجھے اس نے واضح طور پر اپنا رسول مقرر کیا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۴۹،۱۵۰،خزائن ج۲۲ص۱۵۳ ملحض)
کیا انبیاء اور رسول عقیدہ بھی بدل لیا کرتے ہیں؟جھوٹ اوردجل وفریب کی بھلا کوئی حدوانتہا ہے؟اورجہاں تک نسخ کا تعلق ہے، وہ فقہی احکام میں واقع ہواہے،عقائد میں نہیں۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے مینارئہ سفید کے پاس نازل ہوں گے۔اس حدیث کے مفہوم کی شرح وتفسیر مرزائے قادیان کی زبانی سنئے :
’’اب یہ بھی جاننا چاہئے کہ ’’دمشق‘‘ کا لفظ جو ’’مسلم‘‘ کی حدیث میں وارد ہے۔یعنی صحیح بخاری میں جو لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے مینارئہ سفید کے پاس اتریں گے۔یہ لفظ ابتداء سے محقق لوگوں کو حیران کرتا چلاآیا ہے۔واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اﷲ یہ ظاہرکیاگیاہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام رکھا گیا ہے،جس میں ایسے لوگ رہتے ہوںجو یزید الطبع اوریزید پلید کے عادات اور خیالات کے پیروہوں۔خداتعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر فرمادیا کہ یہ قصبہ قادیان بوجہ اس کے کہ اکثر یزید الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہوں۔دمشق سے ایک مناسبت اورمشابہت رکھتا ہے۔‘‘
(حاشیہ ازالہ اوہام ص۶۳تا۷۳،خزائن ج۳ص۱۳۴تا۱۳۸،حاشیہ،ملخص)
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
جائزہ
مرزا غلام احمد قادیانی ہی کے اقوال اورتحریروں سے اس کی جوشخصیت سامنے آتی ہے وہ ایک ایسے پست وعامی شخص کی شخصیت ہے جو مراق، ضعف باہ،سل،ذیابیطس اورسوء حفظ کا مریض رہا ہے۔پھر یہ شخص شروع شروع میں ۱۸۸۰ تا۱۸۸۹ء تک مناظر اسلام اورمبلغ اسلام بن کر منظر عام پر آتا ہے۔ پھرمہبط وحی ولایت ،مجددوقت اورمامور من اﷲ ہونے کادعویٰ کرتا ہے اور ساتھ ہی مسیح علیہ السلام سے اپنی مماثلت کا اظہار بھی تقریباً دو تین سال(۱۸۸۸ء تا۱۸۹۰ئ) یہی