ایک تیار شدہ قبرمیں رکھے گئے۔ تیسرے روز زندہ ہو کر وہاں سے نکل آئے اوراپنے حواریوں سے ملاقات کر کے آسمان پر چلے گئے۔ مسلمانوں کا عام طور پر قرآن کریم کے بیان کے مطابق اعتقاد یہ ہے کہ جب یہودی ان کو پکڑنے کے لئے آئے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے اورجس نے مخبری کی تھی۔ اس کا چہرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا ہوگیا اوراسی کو پھانسی دی گئی۔
خیرالماکرین کے الفاظ صاف ظاہر کررہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کو سازش سے بغیر کسی گزند کے اسی طرح بچالیا ہوگا جیسے کہ حضورﷺ کو مشرکین مکہ کے حملے سے بچالیاتھا۔
سرسید احمدخان نے یہ کہا کہ جو واقعات متیؔ، لوقاؔ اوریوحنا کی انجیل میں مختلف طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۳یا۴ گھنٹے کے بعد صلیب پر سے اتار لئے گئے اور ہر طرح پر یقین ہو سکتا ہے کہ وہ زندہ تھے۔ رات کو وہ لحد سے نکال لئے گئے اور وہ مخفی طور پر اپنے مریدوں کی حفاظت میں رہے۔ حواریوں نے ان کو دیکھا اورملے اور پھر کسی وقت اپنی موت سے مرگئے۔ بلاشبہ ان کو یہودیوں کے خوف سے نہایت مخفی طورپر کسی نا معلوم مقام میں دفن کیا گیا ہوگا۔ جو اب تک نا معلوم ہے اوریہ مشہور کیاہوگا کہ وہ آسمان پر چلے گئے۔
سرسید کو جواب تو لوگوں نے یہ دیاکہ قرآن کریم اورحدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پراٹھا لئے گئے اورقیامت کے قریب ان کا نزول ہو گا۔مگر قادیانی جماعت نے سرسید سے ایک قدم آگے رکھا۔ انہوں نے بزعم خود حضرت عیسیٰ کے مدفن کا بھی پتہ چلالیا اوریہ کہا کہ حضرت عیسیٰ سولی پر چڑھائے گئے۔ لیکن سولی پر ان کی موت واقع نہیں ہوئی۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام غالباً ہندوستان سے ہوتے ہوئے کشمیر جاپہنچے۔ جہا ں سری نگر محلہ خانیار میں ان کا مدفن ہے۔
حدیثوں کی بابت انہوں نے یہ کہا کہ حضرت کے دوبارہ نزول کے متعلق جو پیشین گوئیاں یا حدیثیں ہیں۔ ان کااصلی مفہوم(جو تیرہ سوسال کے بعد اب ظاہر ہوا ہے)یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں آئیں گے بلکہ مثیل عیسیٰ آئیں گے اوراس کی بنیاد بائبل کے ایک دو فقروں پر رکھی جن کاذکر آگے آتا ہے۔مجھے معلوم نہیں کہ اورلوگوں نے بائیبل کے ان فقروں کے متعلق کیا لکھا۔ مگر میری رائے میں اس دعوے کی یا بالفاظ دیگراس تاویل کی قرآن وحدیث میں کوئی بنیاد ہی نہیں۔