توقدون۰ اولیس الذی خلق السماوات و الارض بقادر علی ان یخلق مثلھم بلی وھوالخلّاق العلیم۰ انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون۰فسبحان الذی بیدہ ملکوت کل شیٔ والیہ ترجعون (یٰس:۸۰)‘‘ {کہنے لگا کون زندہ کرے گا ہڈیوں کو جب کھوکھری ہوگئیں۔ تو کہہ ان کو زندہ کرے گا جس نے بنایا ان کو پہلی بار۔ وہ سب طرح بنانا جانتاہے۔جس نے بنادی تم کو سبز درخت سے آگ،پھر اب تم اس سے سلگاتے ہو کیا جس نے بنایا آسمان اورزمین،نہیں بناسکتا ان جیسے کیوں نہیں؟اوروہی ہے اصل بنانے والااس کا حکم یہی ہے کہ جب کرنا چاہے کسی چیز کو تو کہے اس کو ’’ہو‘‘وہ اسی وقت ہوجائے۔سو پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ ہے حکومت ہر چیز کی اور اسی کی طرف پھر کر چلے جاؤگے۔}
ارتقاء ظاہر ہے کہ جہاں وہ خالق ہے علیم بھی ہے۔اس لئے ریزہ ریزہ شدہ چیزوں کو بھی وہ اپنے حکم ’’کن‘‘ سے جمع کرسکتاہے جس سے وہ چیز بن جاتی ہے۔ساتھ ہی چونکہ یہ الفاظ ’’انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون‘‘پہلے آچکے ہیں۔اس لئے امید رکھنی چاہئے کہ آئندہ ایک نیا باب آئے گا۔
’’ھوالذی خلقکم من تراب ثم من نطفۃ ثم من علقۃ ثم یخرجکم طفلا ثم لتبلغوا اشد کم ثم لتکونوا شیوخا ومنکم من یتوفی من قبل ولتبلغوا اجلا مسمی ولعلکم تعقلون۰ ھوالذی یحیی ویمیت فاذا اقضیٰ امرا فانما یقول لہ کن فیکون (مومنون:۶۷)‘‘{وہی ہے جس نے بنایا تم کو خاک سے پھر پانی کی بوند سے،پھر خون جمے ہوئے سے پھر تم کو نکالتا ہے بچہ،پھر جب تک کہ پہنچو تم اپنے پورے زور کوپھر جب تک کہ ہو جاؤ بوڑھے اورکوئی تم میںایسا ہے جو مرجاتاہے پہلے سے اور جب تک کہ پہنچو لکھے وعدے کو اورتاکہ تم سوچو ،وہی ہے جوجلاتاہے اورمارتاہے ،پھر جب حکم کرے کسی کام کو یونہی کہے اس کو کہ ہو جااوروہ ہوجاتاہے۔}
اس میں ارتقاء ہے کہ نہ صرف خلق نئی پیدا کرنا اس کا کام ہے،بلکہ کسی کی حیات و ممات پر بھی اس کا قانون ویسا ہی چلتا ہے۔اس کی قدرت میں ہے کہ وہ کسی کو زندہ رکھے یا فنا کا حکم دے دے۔اس کے لئے کوئی مشکل نہیںہے۔اس کے بعد لفظ’’کن فیکون‘‘قرآن میں نہیں آیا۔