’’واقسموا باﷲ جھد ایمانھم لایبعث اﷲ من یموت بلی وعدا علیہ حقا ولکن اکثرالناس لایعلمون۰لیبین لھم الذی یختلفون فیہ لیعلم الذین کفروا انھم کانوا کاذبین۰انما قولنا لشی اذااردنا ان نقول لہ کن فیکون (انعام:۱۰۹)‘‘{اورقسمیں کھاتے ہیں اﷲ کی سخت قسمیں کہ نہ اٹھائے گا اﷲ جو کوئی کہ مر جائے۔ بیشک اٹھائے گا۔وعدہ ہوچکا ہے اس پرپکا۔لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔اٹھائے گا تاکہ ظاہر کردے ان پر جس بات میں کہ جھگڑتے ہیں اورتاکہ معلوم کرلیں کافر کہ وہ جھوٹے تھے۔ ہمارا کہا کسی چیز کو جب ہم اس کوکرناچاہیں،یہی ہے کہ کہیں اس کو ہوجا تو وہ ہوجائے۔}
اس آیت میں ارتقاء یہ ہے کہ مردوں کو زندہ کرنا کیا مشکل ہے جب اﷲ تعالیٰ کے ارادے سے ہر ایک بات بسرعت تمام وقوع پذیر ہوجاتی ہے اورکوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی،اس کی قدرت کا قانون ہی ایسا ہے۔پھر سورئہ مریم میں یوں آیاہے:
’’ذالک عیسیٰ ابن مریم قول الحق الذی فیہ یمترون ماکان ﷲ ان یتخذ من ولد سبحانہ اذاقضیٰ امرافانما یقول لہ کن فیکون (مریم:۳۵)‘‘ {یہ ہے کہ عیسیٰ بیٹا مریم کا سچی بات جس میں لوگ جھگڑتے ہیں۔ اﷲ ایسا نہیں کہ رکھے اولاد۔ وہ پاک ذات ہے جب ٹھہرالیتا ہے کسی کام کو کرنا سو یہی کہتا ہے اس کو کہ ’’ہو‘‘وہ ہوجاتاہے۔}
اس آیت مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مزید وضاحت ہے کہ وہ ایسا قادر مطلق ہے کہ ایک بچے کو بن باپ پیدا کر دے اورساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ خدا کے لئے کسی طرح یہ سزاوار نہیں کہ وہ کسی کوبیٹا بنائے۔اس سے پہلی آیت میں ارادے کا ذکر کیاتھا۔اس میں فیصلہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔اس سے ارتقاء ظاہرہے۔
اس آیت مبارکہ کامنشاء قریباً وہی ہے جس کاذکر آیات سورئہ بقر،آل عمران میں ہے۔ اس لئے جیسا کہ اپنے رسالہ الموسوم بہ ’’قرآن اورایک غلط فہمی کا ازالہ‘‘ میں بتاچکا ہوں کہ جب کوئی آیت ایک بیان شدہ مضمون کی دوبارہ آجائے تو سمجھنا چاہئے کہ اس مضمون کا دوسرا باب شروع ہوتاہے۔جیسا کہ آگے آتاہے:
’’قال من یحیی العظام وھی رمیم قل یحیھا الذی انشأھا اوّل مرۃ وھو بکل خلق علیم۰ الذی جعل لکم من الشجرالاخضر نار افاذا انتم منہ