ایسی وجوہات کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تھااور وجوہات بھی ہیں۔جن کا ذکرآگے آئے گا۔مگر چونکہ آج کل کی دنیامادہ پرست زیادہ ہے اورخدا کی قدرت کو اپنے تجربے اورعلم کے اندر محدود کرنا چاہتی ہے۔اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ خدا کی قدرت جس کو دوسرے الفاظ میں ’’کن فیکون‘‘کہاگیاہے،کے متعلق کچھ اورلکھاجائے اوروہ بھی قرآن سے۔ساتھ ہی میں یہ دکھانے کی کوشش کروں گا کہ اصطلاح’’کن فیکون‘‘میں بھی ارتقاء ہے۔
پہلی دفعہ ’’کن فیکون‘‘سورئہ بقر کی مذکورہ بالاآیت میں آیا ہے یعنی:’’بدیع السموات والارض۰ واذاقضیٰ امر فانما یقول لہ کن فیکون‘‘اس آیت مبارکہ میں لفظ ’’بدیع‘‘کہہ کر یہ ظاہر کیاگیا کہ بغیر مادے ،اسباب وغیرہ کے اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کردیا۔دوسری دفعہ ’’کن فیکون‘‘سورئہ آل عمران کی اس آیت میں ہے۔جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاذکر ہے۔یعنی:’’قالت رب انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر، قال کذالک اﷲ یخلق مایشاء اذااقضیٰ امرفانما یقول لہ کن فیکون‘‘ یعنی جسے اپنی قدرت سے چاہے،پیدا کر سکتا ہے اورآگے چل کر اسی سورئہ میں اس کی ایک مثال بیان کردی:’’ان مثل عیسیٰ عند اﷲکمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون(آل عمران:۵۹)‘‘{خدا کے نزدیک توجیسے عیسیٰ کی حالت ویسا آدم کی حالت ان کی مٹی کا پتلا بنا کر کہا کہ ہو جا۔ پس فوراً ہی وہ انسان ہوگیا۔}
اور یہی اس کاارتقاء ہے۔ساتھ ہی بلاباپ ہونے کی مزید تشریح ہے۔پھر سورئہ انعام میں فرمایا:’’ان اقیموا الصلوٰۃ واتقوہ وھوالذی الیہ تحشرون وھو الذی خلق السموات والارض بالحق ویوم یقول لہ کن فیکون (انعام:۷۲)‘‘{اور یہ کہ قائم رکھو نماز اورڈرتے رہو اﷲ سے اوروہی ہے جس کے آگے تم سب اکٹھے ہوگے اوروہی ہے جس نے پیداکیا آسمانوں اورزمین کو ٹھیک طور پر اورجس دن (کسی چیز کو)کہتا ہے کہ ہوجا تو(فوراً ) ہو جاتی ہے یا یہ کہ جس دن کہے گا کہ ہوجا تو وہ ہوجائے گا یعنی حشر۔}
یہی ارتقاء ہے ۔ان کواس طرح بدل دے گا جس طرح کہ پیداکیاتھا۔معاذ اﷲ زمین و آسمان یاآدم علیہ السلام کے پیدا کرنے کے بعد خدا سے یہ طاقت وقدرت سلب نہیں ہوگئی۔بلکہ ہمیشہ قائم رہے گی ۔پھر سورئہ نحل میں فرمایا: