(آگے مزید توضیح آتی ہے )لیکن جب حضرت مریم کو بشارت دی جاتی ہے تو وہ کہتی ہیں :’’قالت رب انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر (آل عمران:۴۷)‘‘{کہنے لگی پروردگار!مجھے لڑکا کیونکر ہوگا۔ حالانکہ مجھے کسی مرد نے چھوا تک نہیں۔}
جواب ملتا ہے:’’قال کذالک اﷲ یخلق ما یشائ۰اذا قضیٰ امرا فانما یقول لہ کن فیکون (آل عمران:۴۷)‘‘{اسی طرح خدا جو چاہتا ہے اورجب حکم جاری کرتا ہے تو صرف کہہ دیتا ہے ’’ہو‘‘اوروہ ہوجاتاہے۔}
اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے بوڑھے باپ اوربانجھ عورت سے لڑکا پیدا کر دیا اور کہہ دیا کہ جو اﷲ چاہتا ہے کرتاہے۔مگرحضرت مریم علیہا السلام کے جواب میں ’’کذالک یفعل ما یشائ‘‘ کی جگہ نہ صرف ’’کذالک یفعل ما یشائ‘‘کہا بلکہ ’’واذاقضیٰ امرافانما یقول لہ کن فیکون‘‘کے جملے کا اضافہ کردیا۔جس سے ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو ایک الگ رنگ میں پیداکیا۔یعنی مستثنیات سے ہے۔
قرآن کریم نے اس تفریق کو ہر طرح سے مدنظررکھا ہے۔حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نسبت فرمایا:’’وبرابوا لدیہ ولم یکن جباراعصیا(مریم:۱۴)‘‘{اور اپنے ماں باپ کے حق میں سعادت مند تھے اورسرکش ونافرمان نہ تھے۔}
لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ان سے کہلایا:’’وبرابوالدتی ولم یجعلنی جباراشقیا (مریم:۳۲)‘‘{اورمجھ کو اپنی والدہ کا فرمانبردار بنایااور سرکش ونافرمان نہیں بنایا۔}
باپ کاذکر نہیں کیا کیونکہ ظاہری باپ نہیں تھا۔دوسری جگہ فرمایا ہے:’’فاستجنا لہ ووھبنا لہ یحیٰی واصلحنالہ زوجہ(انبیاء :۹۰)‘‘{ہم نے اس کی دعا سن لی اور ہم نے ان کو بیٹا یحییٰ عطا ء کیا اور ہم نے ان کی بیوی کو ان کے لئے اچھا بنادیا۔}
لیکن اگلی آیت میں فرمایا:’’والتی احصنت فرجھا،فنفخنا فیھا من روحنا وجعلنھا وابنھا آیۃ للعلمین (انبیائ:۹۱)‘‘{اور وہ بی بی جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی تو ہم نے ان(کے پیٹ)میں اپنی طرف سے روح پھونک دی اوران کو اوران کے بیٹے(عیسیٰ)کو سارے جہاں کے واسطے (اپنی قدرت کی)نشانی بنایا۔}