اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیرباپ کے پیداکیا اور جب خود وہ ایک قانون بناتا ہے تو جب تک خود ہی نہ فرمائے کہ فلاں معاملے میں اس نے اسی قانون کے خلاف اپنی قدرت کا اظہارکیا۔ اس وقت تک خود بخود ہمارا کسی امر کو اس قانون کے خلاف سمجھ لینا جائز نہیں۔
ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے۔آؤ دیکھیں قرآن کریم اس بارے میں کیا کہتا ہے اور مستثنیات ثابت کرتا ہے یا نہیں؟
اﷲ تعالیٰ سورئہ بقر رکوع میں فرماتے ہیں: ’’وقالو اتخذاﷲ ولدا سحانہ بل لہ ما فی السموات والارض و اذا قضی امر فانما یقول لہ کن فیکون (بقرہ:۱۱۴)‘‘{اورکہتے ہیں کہ اﷲ نے بیٹا بنالیا، وہ پاک ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اورزمینوں میں ہے،اسی کاہے۔سب اسی کے فرمانبردار ہیں۔ آسمانوں اورزمینوں کا موجد ہے اورجب کوئی حکم جاری کرتاہے صرف اسے کہہ دیتا ہے ،ہو، سو وہ ہو جاتا ہے۔}
بدع یاابداع کے معنی ہیں ایسا بنانا جس کا پہلے نمونہ نہ ہو اور اﷲ تعالیٰ کے لئے جب یہ لفظ استعمال ہو تومعنی ہوتے ہیں بغیر آلہ،مادہ،زمانہ اورمکان کے کسی چیز کا معرضی وجود میں آنا۔ اس معنی کو خود مولوی محمد علی نے اپنی تفسیر بیان القرآن میں ص۱۰۹ پر بیان کیا ہے۔اگرچہ یہاں عیسائیوں کے اس عقیدے کی تردید کی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن اﷲ تھے۔ مگر ساتھ ہی:’’بدیع السموات والارض واذاقضیٰ امرافانما یقول لہ کن فیکون‘‘کہہ کر اس امر کی تشریح کر دی کہ اس کا بلا باپ ہونا ابن اﷲ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔خدا جب بغیر آلہ اور مادہ کے آسمانوں اورزمینوں کو پیدا کرسکتا ہے۔تو وہ اپنے حکم سے ایک عورت کے رحم میں نطفہ بغیر ظاہری باپ کے پیدا کر سکتاہے اور اس لئے دوسری جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر کے وقت یہی الفاظ کہے گئے ہیں۔جب حضرت زکریا علیہ السلام کو یحییٰ علیہ السلام کی بشارت دی جاتی ہے تو کہتے ہیں:
’’قال رب ان یکون لی غلام وقد بلغنی الکبرو امرأتی عاقر(آل عمران :۴۰)‘‘{ اس نے کہا میرے رب مجھے لڑکا کیونکر ہو سکتا ہے حالانکہ مجھ پر بڑہاپا آچکا ہے اورمیری عورت بانجھ ہے۔} جواب ملتاہے:
’’کذالک اﷲ یفعل مایشائ(آل عمران :۴۰)‘‘{اسی طرح ہوگا،خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔}