سرسید نے قانون فطرت کو ثابت کرنے کے لئے یہ جو جوڑے (یعنی زن ومرد) سے اور نطفہ کے ایک مدت معین تک مقررہ جگہ میں رہنے سے انسان پیدا ہوتا ہے،مفصلہ ذیل آیات پیش کی ہیں:’’لقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین ثم جعلنہ نطفۃ فی قرار مکین … فتبارک اﷲ احسن الخالقین (مومنون:۱۲تا۱۴)‘‘{اورہم نے آدمی کو گیلی مٹی کے جوہر سے پیداکیا۔پھر ہم نے اس کوایک محفوظ جگہ (عورت کے رحم)میں نطفہ بناکر رکھا۔پھر ہم نے نطفے کو جما ہوا خون بنایا۔پھر ہم ہی نے منجمد خون کو گوشت کالوتھڑا بنایا۔پھر ہم نے ہڈیوں پرگوشت کالوتھڑا چڑھایا۔پھر ہم نے اس کو (روح ڈال کر)ایک دوسری صورت میں پیدا کیا۔تو(سبحان اﷲ!)خدا بابرکت ہے جو سب بنانے والوں سے بہترہے۔}
’’ومن آیاتہ ان خلقکم من تراب ثم اذاانتم بشر تنشرون… یتفکرون(روم :۲۰،۲۱)‘‘{اوراس کی قدرت کی نشانیوں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تم کومٹی سے پیدا کیا پھر یکایک تم آدمی بن کر (زمین پر)چلنے پھرنے لگے اوراسی کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری جنس کی بیبیاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے ساتھ رہ کر چین کرو اور تم لوگوں کے درمیان الفت پیدا کردی۔اس میں شک نہیں کہ اس میں غور کرنے والوں کے لئے (قدرت خدا)کی یقینی بہت سی نشانیاں ہیں۔}
سرسید کے بعد قادیانی جماعت کا فروغ ہوا۔اس کے بانی مرزاغلام احمد نے یہ تو مانا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلاباپ پیدا ہوئے۔مگر ان کے پیروؤں سے لاہوری جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ بلاباپ پیدا نہیں ہوئے۔مولوی محمد علی نے دو آیتیں مزید پیش کی ہیں:’’ثم جعل نسلہ من سللۃ من ماء مھین (سجدہ:۸)‘‘{یعنی آفرینش اول کے بعد اس کی نسل کو نطفے سے چلایا ہے۔}اور’’اناخلقنا الانسان من نطفۃ امشاج (دہر:۲)‘‘{ہم انسان کو مرد وعورت کے ملے ہوئے نطفے سے پیدا کرتے ہیں۔}
مولوی صاحب کی دلیل ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ بالتصریح یہ نہ فرمائے کہ عیسیٰ کو ہم نے اپنے اس قانون کے خلاف یا الگ رنگ میں پیدا کیا تھا۔ اس وقت تک یہی ماننا پڑے گا کہ وہ اسباب جو اﷲ تعالیٰ نے پیدا کئے،اسی رنگ کے تھے۔ان کے خیال میں یہاں اﷲ کی قدرت پر کوئی سوال نہیں کہ اسے ایسا کرنے کی قدرت ہے یا نہیں۔اس کو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا کرنے کی قدرت ہے۔سوال صرف یہ ہے کہ قرآن شریف یاحدیث صحیح سے ثابت ہوتا ہے کہ