’’ومامنعنا ان نرسل بالایات الا کذب بھا الا ولون وآتینا ثمود الناقۃ مبصرۃ فظلمو ابھا وما نرسل بالایات الانخویفا (اسرائ:۵۹)‘‘{اور ہمیں معجزات بھیجنے سے بجز اس کے اورکوئی وجہ مانع نہیں ہوتی کہ اگلوں نے انہیں جھٹلایا اور ہم نے قوم ثمود کو (معجزے سے )اونٹنی عطا کی(جو ہماری قدرت کی) دکھانے والی تھی۔تو ان لوگوں نے اس پرظلم کیا(یہاں تک کہ مارڈالا)اور ہم تومعجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔}
نوٹ:یہاں آیت کے معنی سوائے معجزے کے اورکچھ نہیں ہوسکتے۔اس لئے مجھے سر سید صاحب کے اس دعویٰ سے کہ قرآن کریم میں آیت اورآیات بینات سے احکام مراد ہوتے ہیں۔جو انبیاء کو وحی کئے جاتے ہیں،اختلاف ہے۔اگر ان دونوں آیتوں میں آیات کے معنی احکام کے لئے جائیں تو ماننا پڑے گا کہ اﷲ تعالیٰ نے حضورؐ پر کبھی کوئی حکم نازل نہیں فرمایا۔
وہ کہتے ہیں کہ جو انسان نے اپنے تجربے سے ثابت کیا ہے،مستثنیات ثابت ہونی چاہئیں۔لیکن معجزہ تو ایسا امر ہے کہ جسے انسانی تجربہ کے خلاف نہیں کہا جا سکتا۔اس امر کی کافی شہادت ہے کہ معجزے ہوتے رہتے ہیں۔ہر ایک مذہب اس پر گواہ ہے۔سورئہ انفال میں آیا ہے: ’’ومارمیت اذرمیت وما لکن اﷲ رمی(انفال:۱۷)‘‘{اورتو نے نہیں پھینکی مٹھی خاک کی جس وقت پھینکی تھی لیکن اﷲ نے پھینکی۔}
روایت سے تصدیق ہوتی ہے کہ جنگ بدر میں جب لڑائی کی شدت ہوئی تو حضورؐ نے ایک مٹھی کنکریاں لشکر کفار کی طرف پھینکیں۔خدا کی قدرت کنکریوں کے ریزے ہر کافر کی آنکھ تک پہنچے۔وہ سب آنکھیں ملنے لگے۔ادھر سے مسلمانوں نے حملہ کردیا اور کفار کو شکست دی۔ گو بظاہر کنکریاں حضورؐ نے اپنے ہاتھ سے پھینکی تھیں۔لیکن ہر سپاہی کی آنکھ میںکنکریوں کا جانا کسی بشر کا فعل عادۃً نہیں ہوسکتا۔یہ صرف خدائی ہاتھ تھا جس نے مٹھی بھر کنکریوں سے فوج کا منہ پھیر دیا۔
معجزات ایک نبی یا رسول اپنے ارادے یاحکمت سے صادر نہیں کرتا۔لیکن اﷲ تعالیٰ جس وقت مشیت ایزدی ہواپنے نبی کے ہاتھ سے معجزات کے ساتھ اکثر لفظ ’’باذن اﷲ‘‘ آیا ہے یعنی خدا کی اجازت سے۔ اس کے متعلق دیگر آیات لکھنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن مستثنیات کا سوال خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات سے ہی حل ہوجاتاہے۔