۷… ’’یہ بات دیکھنی لازم ہے کہ جو معنی ا س لفظ کے قرار دیئے گئے ہیں۔اس پر کوئی عقلی معارضہ بھی ہے یا نہیں۔اگر ہے تو وہ معنی اس کے صحیح نہ ہوںگے اور یہ بات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بلکہ تمام علمائے اسلام نے سینکڑوں مقامات میں اس کی پیروی کی ہے۔مثلاً خدا کے عرش پر استویٰ ہونے میں اس کے ہاتھ اورمنہ اورساق ہونے میں اورمثل ان کے اور بہت سے لفظوں کے اصلی معنی اس لئے نہیں لئے گئے کہ دلیلی عقلی ان کے برخلاف تھی۔پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ اور الفاظ کے ایسے معنی جودلیل عقلی سے محال ہیں،یا خود اس قانون فطرت کے مخالف ہیں جو خود خدا نے بیان کیاہے یا تجربہ کے مخالف ہیں،چھوڑ کر دوسرے معنی نہ لئے جائیں۔‘‘
سرسید کے دلائل نمبر۱ لغایت نمبر۶ پر تو جرح کی ضرورت نہیں ہے۔نمبر ۷ کی بناء پر سرسید احمد نے کل معجزات سے انکار کیا ہے۔بلکہ روح الامین کو ملکہ نبوت کہہ دیا ہے۔اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:’’جو قانون قدرت کہ انسان نے تجربہ سے قائم کیا ہے۔اس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ جب تمام قانون فطرت ابھی تک نا معلوم ہیں۔ممکن ہے کہ کوئی قانون فطرت ایسا ہو جس سے مستثنیات ثابت ہوئے ہیں۔مگر ان کے خیال میں یہ کہنا کافی نہیں ہے۔اس لئے کہ امکان عقلی تو کوئی وجودی شے نہیں ہے۔بلکہ صرف ایک خیالی غیر محقق الوقوع ہے۔‘‘’’وان الظن لا یغنی من الحق شیئا‘‘
’’علاوہ اس کے امکان کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جو کبھی ہو اورکبھی نہ ہو۔لیکن جس چیز کا کبھی وقوع ثابت نہ ہوا ہو تو اس پر امکان کا اطلاق غلط ہے۔غرضیکہ جو شخص قانون فطرت میں مستثنیات کا مدعی ہو۔اس کو ان مستثنیات کے کبھی واقع ہونے کو ثابت کرنا بھی لازم ہے۔‘‘
میں ان دونوں امور پر بحث کروں گا۔قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جن چیزوں کو ہم لوگ قانون قدرت میں مستثنیات (یا خرق عادت)کہتے ہیں،وہ معجزات ہیںاورمعجزات صادر ہوتے رہتے ہیں اورخدا اپنے مقبول بندوں کو معجزات عطا کرتا ہے۔سورئہ انعام رکوع نمبر۴ میں آیا ہے:
’’وقالوا الولا نزل علیہ آیۃ من ربہ۰قل ان اﷲ قادرعلی ان ینزل آیۃ ولکن اکثر ھم لایعلمون(انعام:۳۷)‘‘{اورکفار کہتے ہیں کہ ان پر (آنحضرت ؐ پر) کوئی معجزہ خدا کے ہاں سے کیوں نہیں اترا۔کہہ دو خدا اس پر قادر ہے کہ معجزہ نازل کرے لیکن لوگ نہیں جانتے۔}