سوم… یہ کہ نزول وحی کے گواہوں کا فہم اس تفسیر کے مخالف واقع نہ ہو۔وہ گواہ پیغمبرﷺ اور اصحاب کرامؓ ہیں۔(اس میں شان نزول شامل ہے)
پھر ان تینوں چیزوں میں سے ایک فوت ہو جائے اوردوسری دوباقی ہیں تو اس کو تاویل کہتے ہیں اور اگر پہلی چیز فوت ہو جائے(یعنی اصلی ومجازی معنی)لیکن دوسری اور تیسری باقی رہیں تو اس کو تاویل قریب کہتے ہیں اوراگر دوسری فوت ہو جائے (یعنی سیاق وسباق) اورپہلی اور تیسری باقی رہے یا تیسری فوت ہو جائے(یعنی جو کچھ رسول اﷲﷺ یااصحاب سے مروی ہے)لیکن پہلی اور دوسری باقی رہیں توان دونوں صورتوں کو تاویل بعید کہتے ہیں۔ اگر یہ تینوں چیزیں فوت ہو جائیں تواس کا نام تحریف ہے۔
مقدمہ ہذا کے ان اصولوں پر کسی صاحب رائے کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔لیکن جو صاحب تاویل قریب اوربعید بلکہ تحریف کرتے ہیں۔ان کے دلائل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سرسید بھی ان میں سے ایک ہیں۔بہتر ہوگا کہ میں انہی کے الفاظ میں ان کے دلائل پیش کروں:
۱… وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ہر ایک کلام کے معنی قراردینے میں وہ کلام کسی کا ہو خواہ خدا کا ہو یا انسان کا،مندرجہ ذیل باتوں کامحقق ہونا ضروری ہے۔جس لفظ کے جو معنی قرار دیئے گئے ہوں، اس کی نسبت جاننا چاہئے کہ وہ لفظ ان ہی معنوں میں وضع کیاگیا ہے۔‘‘
۲… ’’اس بات کا قرار دینا کہ جن معنوں میں وہ لفظ وضع کیاگیاتھا۔ان معنوں سے کسی دوسرے معنوں میں مستعمل نہیںہواہے۔‘‘
۳… ’’اگر وہ لفظ مشترک المعنی ہے تواس بات کا قراردینالازم ہے کہ وہ ان مشترک معنوں میں سے کس معنی میں استعمال کیاگیاہے۔ضمائر جن کا مرجع مختلف ہوسکتا ہے۔وہ بھی الفاظ مشترک المعنی میں شامل ہیں۔‘‘
۴… ’’اس بات کا قراردیناضرور ی ہے کہ وہ ان اصلی معنوں میں بولاگیا ہے جواس سے متباورہوتے ہیں یامجازی معنوں میں۔‘‘
۵… ’’اس بات کا قراردینا کہ اس کلام میں کوئی شے مضمر ہے یا نہیں۔‘‘
۶… ’’اس بات کا قراردینا ضروری ہے کہ جن معنوں پر وہ لفظ دلالت کرتا ہے۔اس میں کوئی تحضیص بھی ہے یا نہیں؟‘‘