ایک مثال دے کر یہ بھی واضح کیاتھا کہ اگر ترتیب الفاظ کومدنظر رکھا جائے توبعض دیگر مسائل قرآنیہ کے سمجھنے میںنہایت آسانی ہو جاتی ہے اورخاص کراختلافی مسائل ہیں۔
میں چاہتا ہوں کہ جس نظریہ کو میں نے ان دونوں رسالوں میں پیش کیا ہے۔اس پر اہل بصیرت زیادہ غوروخوض کریں۔کیونکہ یہ نظریہ ان تمام باطل اعتراضات کا جواہل مغرب نے دیدہ ودانستہ یانادانستہ کئے ہیں،قلع قمع کردیتا ہے۔یہ رسالہ ایک ایسے اختلافی مسئلے پرروشنی ڈالنے کے لئے لکھاگیا ہے جس سے مسلمانوں میں کچھ ایسا تفرقہ پیداہوچکا ہے کہ معلوم نہیں اس کا انجام کیا ہوگا اورکب تک مسلمان اس خانہ جنگی میں مبتلا ہوکر دیگر مسائل ضروریہ سے تغافل برتیں گے۔دیگر میرے خیال میں آتا ہے کہ جب تک کہ ترتیب الفاظ اورتدریجی ارتقاء کو ہر مسئلے کے حل کرنے میں مدنظرنہ رکھاجائے،صحیح مفہوم قرآنی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔دین حنیف کے الفاظ عام لوگوں کی زبان پر ہیں۔مگران تمام آیات کو پڑھنے کے بغیر جن کا ذکر میں نے پہلے رسالے میں کیاہے،دین حنیف کاصحیح مفہوم سمجھنا مشکل ہے۔اختلافی مسائل جن پرمیں کچھ لکھنا چاہتا ہوں،وہ حسب ذیل ہیں:
۱… آیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدانہیں ہوئے؟
۲… کیاان کوصلیب پرچڑھایاگیا،یاآسمان کی طرف زندہ اٹھالیاگیا؟
۳… کیا ان کی موت واقع ہوچکی ہے؟
پیشتر اس کے کہ اصل مضمون پرکچھ لکھا جائے،یہ امر قابل غور ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کی تشریح وتفسیر کرتے ہوئے کن کن امور کا مدنظررکھنا ضروری ہوتاہے۔شاہ عبدالعزیزؒ نے سورئہ قیامہ کی تفسیر میں اﷲ تعالیٰ کی روئیت کی حقیقت کا بیان کرتے ہوئے ایک مقدمہ سپرد قلم کیا ہے۔جس کاماحصل یہ ہے کہ کلام اﷲ کی تفسیر اس کو کہتے ہیں کہ تین چیزوں کی رعایت اس میں پائی جائے:
اول… یہ کہ ہر کلمہ کو حقیقی معنوں پر حمل کرنا چاہئے یامشہور اورمتعارف مجازی معنوں پر(یعنی دیکھنا یہ ہوتاہے کہ وہ کلمہ اس جگہ اپنے حقیقی اوراصلی معنوں میں استعمال ہوا ہے یا بطور مجاز یا محاورہ کے)
دوم … یہ کہ اس کلمہ کے سیاق وسباق کو اورکلام کے نظم کواول سے آخر تک نگاہ میں رکھنا چاہئے تاکہ کلام بے نسق و بے ربط نہ ہوجائے۔