’’آنحضرتﷺ معلم ہیں اورمسیح موعود ایک شاگرد خواہ استاد کے علوم کا وارث پورے طور پر ہو جائے یا بعض صورتوں میںبڑھ جائے مگر استاد بہرحال استاد ہی رہتا ہے اور شاگرد،شاگرد ہی۔‘‘
(تقریر محمود احمد خلیفہ قادیان مندرجہ اخبار الحکم قادیان۲۸؍اپریل ۱۹۱۴ء منقول از لمہدی نمبر ۲،۳)
اس کے بعد ایک قادیانی کے دو شعر ملاحظہ کیجئے جو مرزا قادیانی کے ان اقوال کا بروز اورظل ہیں۔
محمد پھر اترآئے ہیںہم میں
اورآگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کودیکھے قادیان میں
(قاضی ظہورالدین اکمل قادیانی ،روزنامہ بدرقادیان ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ئ)
(نزول المسیح ص۹۹،خزائن ج۱۸ص۴۷۸،۴۷۷ )میں مرزاقادیانی تمام انبیاء علیہم السلام پر اپنی فضیلت کا اعلان کرتا ہے:
انبیاء گرچہ بودہ اندبسے
من بعرفاں نہ کمترم زکسے
آنچہ دادست ہر نبی راجام
دادآں جام رامرابہ تمام
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین
ہرکہ گوید دروغ ہست لعین
ان اشعار سے اکابر قادیان نے کیامفہوم لیا۔اس کااندازہ مرزابشیراحمد قادیانی کے ان جملوں سے کیاجا سکتا ہے۔
’’اس کے (آنحضرتؐ) کے شاگردوں میں علاوہ بہت سے محدثوں کے ایک نے نبوت کا بھی درجہ پایا اور نہ صرف یہ کہ نبی بنا،بلکہ مطاع کے کمالات کو ظلی طور پر حاصل کر کے اولوالعزم نبیوں سے بھی آگے نکل گیا۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۲۵۷)
اور’’پس مسیح موعود کی ظلی نبوت کوئی گھٹیا نبوت نہیں۔بلکہ خدا کی قسم اس نبوت نے جہاں آقا کے درجہ کو بلند کیا وہاں اس مقام پرکھڑا کردیا جن تک انبیاء بنی اسرائیل نہ پہنچ سکیں۔‘‘
(کلمتہ الفصل مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلیجز ص۱۴۴ نمبر ۳ج۱۴)
مرزا کے بیٹے کے یہ الفاظ : ’’اس نبوت نے جہاں آقا کے درجہ کو بلند کیا‘‘ غور طلب ہیں۔یعنی مرزا کی ظلی نبوت کے سبب رسول اﷲﷺ کے درجہ کو بلندی میسر آئی۔ لعنۃ اﷲ علی من قال ھکذاوھکذا!
٭ ’’پس اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز (مرزاقادیانی) اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر