پائے گا جو اس ابراہیم کا پیروکار ہوگا۔‘‘ (اربعین نمبر۳ص۳۱،خزائن ج۱۷ص۴۲۰)
ایسی باتیں وہی کر سکتا ہے جو مراقی اورآسیب زدہ ہو اورتیتخبطہ الشیطان کا پوری طرح مصداق ہو اور جسے نہ خدا کا خوف ہو اورنہ بندوں کی شرم۔
جو شخص اپنی شروع کی تحریروں میں لکھ چکا ہے کہ میں رسول اﷲﷺ کا متبع اورغلام ہوں اور حضور ہی کے واسطہ سے مجھے سب کچھ ملا ہے۔پھر وہ ایسی کفریات بھی بکنے لگتا ہے :
’ ’اس کے (یعنی نبی کریم کے)لئے صرف چاند گرہن کانشان ظاہر ہوا اورمیرے لئے چاند اور سورج دونوںکا گرہن اب کیا تو انکارکرے گا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷۱،خزائن ج۱۹ص۱۸۳)
اسی طرح’’ آنحضرت ﷺ کے وقت کے تمام احکام کی تکمیل ہوئی اورصحابہ کے وقت میں اس کے ہر ایک پہلو کی اشاعت کی تکمیل ہوئی اورمسیح موعود کے وقت میں اس کے روحانی فضائل اوراسرار کے ظہور کی تکمیل ہوئی۔ ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۲،خزائن ج۲۱ص۶۶)
٭ ’’ہمارے نبیﷺ کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا اوروہ زمانہ اس روحانیت کی ترقیات کاانتہاء نہ تھا۔بلکہ اس کے کمالات کے معراج۱؎ کے لئے پہلا قدم تھا۔پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخر میں اس وقت پوری طرح تجلی فرمائی۔ ‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۱۷۷،خزائن ج۱۶ص۲۶۶ )
٭ ’’اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا اورمقدر تھا کہ انجام کارزمانہ میںبدر ہو جائے خدا تعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ اسلام اس صدی میں بدر کی شکل اختیار کرلے جو شمار کی رو سے بدر کی طرح مشابہ ہو۔یعنی چودھری صدی پس ان ہی معنوں کی طرف اشارہ ہے۔خدا کے اس قول میں کہ: ’ ’لقد نصرکم اﷲ ۲؎ ببدر‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۸۴،خزائن ج۱۶ص۲۷۶،۲۷۵)
مرزائے قادیان کے ان اقوال میں قدر مشترک رسول اﷲﷺ پر اس (مرزا) کی فضیلت کا پہلوہے۔ ان اقوال سے ہم نے کوئی نکتہ پیدا نہیں کیابلکہ اس کے بیٹے اورجانشین مرزا غلام احمد نے بھی ان اقوال سے یہی بات سمجھی ہے۔وہ اپنی تقریر میں کہتا ہے:
۱؎ ایک چھوٹے سے جملے میںتین ،چار بار کے آیا ہے،یہ قادیانی نبی کی انشاء پرادزی جس سے وحی والہام کو نسبت دی جاتی ہے۔
۲؎ قرآن کریم کو اپنی ہوائے نفس اوربزرگی جتانے کے لئے اس طرح مضحکہ بنایا کتنی تکلیف دہ خباثت ہے۔