تقسیم کی وضاحت کرتے ہوئے قادیانی فرقہ کے افراد کوغیر مسلم اقلیت کے زمرے میں شامل کیا گیا۔متذکرہ بالا آئینی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد عوام کی نمائندگی کے ایکٹ مجریہ سال ۱۹۷۶ء میں دفعہ ۴۷۔الف کا اضافہ کیا۔جس کا تعلق غیر مسلم اقلیتی نشستوں سے ہے۔اس جدید دفعہ ۴۷۔الف میں بھی قادیانی گروپ سے متعلق افراد کو ’’غیرمسلموں‘‘ کے زمرے میں شامل کردیاگیا۔ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی بھی قادیانیوں کی آئینی حیثیت بطور’’غیرمسلم‘‘ اقلیت متعین ہوجانے کی بناء پر معرض وجود میں آئی۔اسی طرح ایوان ہائے پارلیمان وصوبائی اسمبلیوں کے (انتخابات)کے فرمان مجریہ سال ۱۹۷۷ئ(فرمان صدر بعد از اعلان نمبر۵مجریہ سال۱۹۷۷ئ)میں بھی بذریعہ صدارتی فرمان نمبر۱۷مجریہ سال ۱۹۷۸ء ترمیم کر کے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے سلسلے میں اہلیت اورنااہلیت کے متعلق’’مسلم ‘‘ اور ’’غیر مسلم‘‘ کے الگ الگ زمرے طے کردیئے گئے۔جس کے نتیجے میں کوئی شخص اس وقت تک کسی اسمبلی کے انتخاب کے لئے اہل قرار نہیں پا سکتا جب تک کہ اس کا نام ’’مسلمانوں‘‘ یا ’’غیر مسلموں‘‘ کی نشستوں سے متعلق جداگانہ انتخابی فہرستوں میں سے کسی ایک میںدرج نہ ہو۔
بعد ازاں فرمان عارضی دستور مجریہ سال ۱۹۸۱ء جاری کرتے وقت بھی قادیانیوں کی متذکرہ بالاحیثیت بطورغیر مسلم برقرار رکھی گئی۔چنانچہ فرمان عارضی دستور کے آرٹیکل ۲ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور،۱۹۷۳ء جو فی الحال معطل ہے،کے کچھ آرٹیکل کو فرمان عارضی دستور کاحصہ بناتے وقت آرٹیکل ۲۶۰ کو بھی شامل کیاگیا۔
اس واضح قانونی پوزیشن کے باوجود کچھ حلقوں میںقادیانیوں کی آئینی و قانونی حیثیت کے متعلق شک کا اظہارکیاگیا جسے دور کرنے کے لئے فرمان عارضی دستور مجریہ سال ۱۹۸۱ء میں آرٹیکل نمبر۱۔الف کا اضافہ کیاگیا۔جس کی رو سے یہ قرار پایا کہ ۱۹۷۳ء کے دستور اور مذکورہ فرمان نیز تمام وضع شدہ قوانین اور دیگر قانونی دستاویزات میں مسلم اور غیر مسلم سے مراد وہی لی جائے گی جس کا ذکر فرمان عارضی دستور مجریہ سال ۱۹۸۱ء کے حوالے سے ترمیم دستور (استقرار) کے فرمان مجریہ سال ۱۹۸۲ء میں ہے۔فرمان عارضی دستور مجریہ سال۱۹۸۱ء کے آرٹیکل ۱۔الف میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کرتے ہوئے قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کے اشخاص کو (جو خود کو احمدی کہتے ہیں)غیرمسلموں کے زمرے میں شامل کیاگیا۔