میںان کی تعداد قابل لحاظ تھی اوروہ یہاں مضبوط اوراچھی طرح قدم جمائے ہوئے تھے۔اس لئے دوسرے ملکوں میں ان کے ساتھ آسانی سے نمٹ لیاگیا اور ترکی، افغانستان ،مصر،سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات اودیگر مسلم ممالک میں انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا۔
بالآخر ۱۹۷۴ء میں پاکستان نے بھی وہی راستہ اختیار کیا اورایک اورعوامی تحریک کے نتیجے میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو دائرئہ اسلام سے خارج قراردیا۔آئین کی دفعہ ۲۶۰ میں ایک نئی شق(۳) کا اضافہ کیاگیا۔اس نئی شق کی عبارت درج ذیل ہے:’’کوئی شخص جو محمدﷺ کی کامل اورغیر مشروط ختم نبوت پر ایمان نہ رکھتا ہو، خدا کے آخری نبی یالفظ نبی کے کسی معنی یا تعریف کے مطابق حضرت محمدﷺ کے بعد نبی ہونے کادعویٰ کرے یا کسی ایسے مدعی نبوت کو نبی تسلیم کرے یا مذہبی مصلح مانے وہ آئین یاقانون کے مقاصد کے لئے مسلمان نہیں ہے۔‘‘
قومی اسمبلی نے ضابطہ فوجداری پاکستان میں ترمیم کی اوراس ضابطہ کی دفعہ ۲۹۵ ۔ الف کی تشریح میں مندرجہ ذیل الفاظ کااضافہ کیا۔
تشریح:کوئی مسلمان حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کے تصور کے خلاف جیسا کہ آئین کی دفعہ ۲۶۰ کی شق(۳) میںاس کا تعین کیاگیا ہے۔اس دفعہ کے تحت سزا کا مستوجب ہوگا۔
قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے یہ سفارش بھی کی کہ متعلقہ قوانین میں آئینی ترمیم سے پیدا ہونے والی قانونی اورضابطے کی تبدیلیوں کے لئے ترامیم کر دی جائیں۔
بلاشبہ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے اصولی طورپر اس ایک سو سال کے پرانے مسئلہ کو حل کردیا۔ لیکن آئینی ترمیم سے پیدا ہونے والی قانونی اور ضابطے کی تبدیلیوں کے لئے اب تک ترامیم نہ کی گئی تھیں۔اس سے قادیانیوں کے لئے گنجائش پیدا ہوگئی تھی کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو ایسے انداز میں جاری رکھ سکیں جو آئینی ترامیم کی روح کے بالکل منافی تھا۔اس سے آئینی ترمیم کے نتائج کو بالکل صفر کے برابرکردیا۔
موجودہ حکومت کے لئے باعث اعزاز ہے کہ اس نے ہمارے دین کی بنیادی تعمیر کو محفوظ رکھنے کے لئے اس سمت میں ایک اہم اوردلیرانہ اقدام کیا۔صدر مملکت نے ابھی حال ہی میں ایک آرڈیننس نافذ کیا ہے تاکہ قانون میں مناسب تبدیلی لائی جائے۔جس سے قادیانی گروہ، لاہوری گروہ اوردیگر احمدیوں کو معاند اسلام سرگرمیوں میں مشغول ہونے سے روکا جائے۔ یہ آرڈیننس مندرجہ ذیل قانونی وسائل مہیا کرتا ہے۔