aakhri paira mojood nei . page 178
انداز نظر ،رویے اوراحساسات پراس تصور کی چھاپ بہت گہری رہی ہے۔
تورات اورانجیل کے صحائف اس بات پرگواہ ہیں کہ تمام سابق انبیاء اپنے سے بعد آنے والے انبیاء کی آمدکی پیش گوئی کرتے رہے ہیں۔لیکن قرآن حکیم میں اس طرح کا کہیں کوئی اشارہ بھی نہیں۔اس کے برعکس ہمیں قرآن حکیم میںایسی واضح آیات ملتی ہیں جو کسی شک وشبہہ کے بغیر اس حقیقت کااظہار کرتی ہیں کہ رسالت کامنصب اختتام پذیرہوچکا ہے اورباب نبوت ہمیشہ کے لئے بند کردیاگیاہے۔احادیث نبویؐ میں اس موضوع پر کئی مصدقہ اورمتفق علیہ حدیثیں موجود ہیں جنہیں تواتر کی بلند حیثیت بھی حاصل ہے۔
یہ عقیدہ اصول دین میں سے ہے اورہمہ گیرہے۔امت مسلمہ میں ہمیشہ اس عقیدے کے متعلق یک جہتی اوراجماع رہا ہے اوراسے ہمیشہ ایمان کا ایک غیر متنازعہ جزو تسلیم کیاجاتا رہا ہے اور یہ ایک ایسی پائیدار بنیاد ہے جس کے اوپراسلام کی صرف نظریاتی عمارت ہی استوار نہیں،اس کی تہذیبی تعمیر بھی ایستادہ ہے۔رسول اکرمﷺ کے بعد اگر کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اسے مسلمانوں نے بے درنگ کاذب اورمرتد گردانا ہے اورپوری امت نے کبھی کسی ایسے شخص کے ساتھ بحث وتمحیص کو ضروری نہیں سمجھا نہ ہی گوارہ کیاہے۔
تکمیل دین اورحضرت محمدﷺ کی ذات اقدس میں نبوت کا اتمام اس امر کی دلیل ہے کہ آنحضورﷺ جو پیغام لائے تھے۔اس میں زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔فکر اسلامی کے ارتقاء اورمسلم معاشرے کی تشکیل میں قرآن حکیم کے آخری کتاب اوررسول پاکؐ کے آخری نبی ہونے کے تصور نے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔
مشہور ومعروف صاحب فکر مؤرخ ابن خلدون،امام ابن تیمیہؒ ان کے روشن ضمیر شاگرد ابن قیمؒ،شاہ ولی اﷲ دہلویؒ اورعلامہ اقبالؒ یسے عظیم مسلمان مفکر ہیں جنہوں نے ختم نبوت کے علمی، معاشرتی اورسیاسی مضمرات پر بحث کی ہے۔اس موضوع پر علامہ اقبالؒ کے خیالات اس رسالہ میں آپ آگے چل کر ملاحظہ فرمائیں گے۔
اس مختصر سی بحث میں یہ بات آئینے کی طرح صاف اورواضح ہو جاتی ہے کہ ختم نبوت پر ہمارا عقیدہ جزو ایمان ہے جو محض کسی مافوق الفطرت اہمیت کا لگابندھا قانون نہیں۔بلکہ اس کے اپنے معاشرتی مضمرات بھی ہیں اوران مضمرات کی بدولت اس نے ایک اسلامی تہذیب کی تشکیل میں بہت مدد دی ہے۔اس نے مسلمانوں کے سامنے آنحضرتﷺ کی ذات کو معیار کی صورت میں رکھا ہے۔اس نے ان کے لئے اخلاقی اورروحانی کردار کا ایک ابدی نظام اقدار استوار کیا